پاکستانی حکام ڈرون حملوں کی خفیہ حمایت کرتے تھے‘ کئی ان کی درخواست پر ہوئے: امریکی میڈیا
واشنگٹن (آن لائن+ رائٹر+ نیٹ نیوز+ اے ایف پی) امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حکام نہ صرف کئی برسوں سے خفیہ طور پر امریکی ڈرون حملوں کی حمایت کرتے رہے ہیں بلکہ انہیں ان حملوں اور ان میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں بریفنگ بھی دی جاتی رہی ہے۔ کئی حملے پاکستانی حکومت کی درخواست پر کئے گئے۔ اخبار نے سی آئی اے کی دستاویزات کے حوالے سے یہ خبر ایسے وقت شائع کی ہے جب وزیراعظم نواز شریف نے وائٹ ہاو¿س میں امریکی صدر اوباما سے ملاقات میں پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ دہرایا ہے۔ اخبار کے مطابق سی آئی اے کے خفیہ دستاویزات میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں درجنوں ڈرون حملوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ نقشے اور حملے سے قبل اور بعد کی تصاویر بھی ہیں۔ یہ دستاویزات ان حملوں سے متعلق ہیں جو2007 سے 2011 تک کئے گئے۔ یہ وہ عرصہ تھا جب ڈرون حملوں میں تیزی آئی تھی۔ ان دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں سی آئی اے کے انسداد دہشت گردی کے مرکز نے خاص طور پر حکومتِ پاکستان کو فراہم کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔ امریکی اخبار کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ایسا راز ہے جس کو نہ تو واشنگٹن اور نہ ہی اسلام آباد نے موزوں طریقے سے راز رکھا۔ ڈرون حملوں کے آغاز میں یہ طیارے پاکستانی فضائی اڈے سے اڑائے گئے۔ ان دستاویزات میں کم از کم پینسٹھ ڈرون حملوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کو ’ٹاپ سیکرٹ‘ قرار دیا گیا ہے لیکن اس بارے میں پاکستان کو معلومات فراہم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ سی آئی اے کے ترجمان نے ان دستاویزات پر تبصرہ کرنے سے تو انکار کیا لیکن ان کے مستند ہونے پر شک نہیں کیا۔ دستاویزات کے مطابق کئی ڈرون حملوں میں ہدف کے تعین میں پاکستانی حکام کے کردار کے شواہد ملتے ہیں۔ ایک دستاویز میں 2010ءکی ایک انٹری ہے جس میں کہا گیا ہے ’یہ حملہ آپ کی حکومت کی درخواست پر کیا گیا ہے‘۔ کئی دستاویزات کو ’ٹاکنگ پوائنٹس‘ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر سی آئی اے مائیکل جے موریل اس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی کو متواتر بریفنگ دیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے حسین حقانی نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ دستاویزات سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان عدم اعتماد بھی واضح ہے۔ کچھ دستاویزات میں ان اجلاسوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں سینئر امریکی حکام بشمول اس وقت کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پاکستانی حکام کے سامنے وہ رپورٹیں رکھیں جن میں پاکستان کے ان شدت پسند گروہوں کے ساتھ تعلقات ہیں جو امریکی فورسز پر حملوں میں ملوث ہیں۔ ان دستاویزات کے مطابق ایک موقع پر ہلیری کلنٹن نے پاکستانی حکام کے سامنے موبائل فون اور تحریری شواہد رکھے جو شدت پسندوں کی لاشوں پر سے ملے تھے جن سے یہ بات واضح تھی کہ پاکستانی حکومت ان کی مدد کر رہی تھی۔ 20 ستمبر 2011ءکی ایک پاکستانی سفارتی کیبل میں کہا گیا ہے امریکہ کے پاس شواہد ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی کے ان گروہوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اخبارکے مطابق 2010ءمیں پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کو ایک میمو بھیجا گیا جس میں لکھا تھا یہ ان 36 امریکی شہریوں کی فہرست ہے جو سی آئی اے کے خصوصی ایجنٹ ہیں اور کسی خاص ٹاسک کیلئے وہ پاکستان آئیں گے۔ ان کو ویزا نہیں دینا۔ دوسری جانب امریکی جریدے ”نیشنل جرنل“ نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان خفیہ پروٹوکول ہے جس میں ڈرون حملوں کی اجازت دی گئی۔ جریدے کے مطابق عوام میں اسے جتنا بھی غیر واضح سمجھا جا رہا ہے لیکن پرویز مشرف اور جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کے درمیان ایک خفیہ معاہد ہ موجود ہے جس کے تحت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ایجنسی نے کئی حملوں کی منظوری دی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی تنقید کے باوجود حکام اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ایجنسیوں نے حملوں کی اجازت دی۔ جریدے نے ایک سابق اعلیٰ پاکستانی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ درست شرائط کو سویلین کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا لیکن مشرف حکومت اور امریکیوں کے درمیان ایک پروٹوکول پر دستخط کئے گئے تھے۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سابق سینئر پاکستانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ 2008ءمیں جب سویلین حکومت برسر اقتدار آئی تو انہیں اس بارے میں آگاہ کیا گیا لیکن اس کے بارے مےں دوبارہ بات نہیں کی گئی۔ جریدے نے لکھا کہ سویلین رہنماﺅں نے مختلف مواقع پر اس مسئلے پر ازسرنو بات چیت کی کوشش کی۔ جریدے نے حسین حقانی کی کتاب کے حوالے سے لکھا کہ سی آئی اے اور پاکستانی خفیہ ایجنسی باقاعدگی سے ان حملوں پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ اے ایف پی کے مطابق پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اخبار کی اس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیا ہے کہ انہوں نے پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملوں کی کوئی اجازت دی۔ ایک سینئر سکیورٹی اہلکار نے کہا ہے کہ اس خبر کا مقصد نواز شریف کی ڈرون حملوں کے خلاف مہم کو نظرانداز کرنا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ڈرون حملوں کو جنگی جرائم قرار دے چکی ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اس رپورٹ کی تردید کی اور کہا کہ ہم شروع سے ہی ڈرون حملوں کے خلاف تھے اور ہر فورم پر امریکہ کو اپنے جذبات سے آگاہ کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق کئی خفیہ ڈرون حملوں میں ہدف کے تعین میں پاکستانی حکام کے کردار کے شواہد ملتے ہیں ایک دستاویز میں 2010ءکی ایک انٹری ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”یہ حملہ آپ کی حکومت کی درخواست پر کیا گیا ہے“۔ ایک اعلیٰ پاکستانی سکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ مذکورہ رپورٹ کا مقصد وزیراعظم نواز شریف کی پوزیشن کو کمزور اور ڈرون حملوں پر تنقید کو کم کرنے کے لیے ایک امریکی کوشش تھی اس حوالے سے سٹرٹیجک اور حکومتی سطح پر کوئی انتظام نہیں کیا گیا انہوں نے کہا ان رپورٹوں میں اپنے آپ کو بچانے کے سوا کوئی مقصد نہیں ہے امریکی صرف اپنے اوپر دباﺅ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے دفترِ خارجہ کے ترجمان اعزاز چودھری نے کہا ہے کہ اگر ماضی میں پاکستان کی حکومتوں نے ڈرون حملوں پر رضامندی ظاہر کی بھی تھی بھی، تو اب ایسا نہیں ہے۔ حکومتِ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ ڈرون حملے رکنے چاہیں۔’ماضی کی حکومتوں کے درمیان جو بھی مفاہمت اور اتفاق ہوا ہو، موجودہ حکومت نے اس معاملے پر اپنی پالیسی واضح کی ہے۔‘ ترجمان نے کہا کہ ڈرون حملے نہ صرف بین الاقومی قوانین اور پاکستان کی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں، بلکہ جس مقصد کے لیے ڈرون حملے کئے جاتے ہیں، نتیجہ اس کے برعکس آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم نواز شریف نے امریکہ کے دورے کے دوران امریکی صدر اور دیگر سینئر اہلکاروں سے ملاقات میں ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھائی۔