60 ہزار والدین کا بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے انکار
پشاور + اسلام آباد (بی بی سی + وقائع نگار) پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں سے اب تک پولیو کے وائرس کا خاتمہ نہیں ہو سکا اور قبائلی علاقوں میں ڈھائی لاکھ بچوں کو اس وائرس کے خاتمے کے لئے قطرے نہیں پلائے جا سکے۔ لگ بھگ ساٹھ ہزار والدین ایسے ہیں جنہوں نے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا ہے۔ گزشتہ دو روز میں پولیو کے تین مریض سامنے آئے ہیں جن میں دو کا تعلق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی اور ایک کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر شیخوپورہ سے ہے جس کے بعد اس سال اب تک انچاس بچوں میں پولیو کے وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ خیبر پی کے میں والدین نے اپنے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے مختلف وجوہات کی بنیاد پر پلانے سے انکار کیا ہے۔ ڈاکٹر امتیاز کے مطابق قبائلی علاقوں میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ شمالی وزیرستان ایجنسی کا ہے جہاں سے سب سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ دریں اثنا وزیر مملکت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن سائرہ افضل تارڑ نے کہا ہے کہ دو لاکھ چالیس ہزار بچے ہر سال پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہتے ہیں، پولیو پرقابو نہ پایا گیا تو پھر پاکستانیوں کے دوسرے ممالک جانے پر پابندی لگ سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز وزارت نیشنل ہیلتھ میں پولیو ڈے کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دریں اثنا بی بی سی کے مطابق وزیر مملکت سائرہ تارڑ نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے پولیو کی ٹیموں پر حملوں کو روکنے کی شرط نہیں رکھی جا سکتی۔ ایک انٹرویو میں پولیو ٹیموں پر حملوں کی بندش کی شرط کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ”نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا اگر مذاکرات ہو گئے تو یہ (پولیو ٹیموں پر حملے) ویسے ہی بند ہو جائیںگے۔ پولیو مہم کے خلاف رکاوٹوں کو دور کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ گورنر خیبر پی کے کی مدد سے اس مسئلے کے حل کے لئے ایک جرگہ بلایا گیا ہے اور ساتھ ہی کچھ علاقوں میں فوج کی مدد بھی لے رہے ہیں۔دریں اثنا بلوچستان حکومت نے بچوں کا سکول میں داخلہ پولیو مہم سے مشروط کر دیا۔ وزیر صحت رحمت بلوچ نے کہا ہیں کہ آئندہ سال ایسے بچوں کو سرکاری سکول میں داخلہ نہیں دیا جائے گا جن کے پاس پولیو کارڈ نہیں ہو گا۔