پاک امریکہ تعلقات کا نیا موڑ…؟
محمد ریاض اختر riazakhtar.nw@gmail.com ...
پاک امریکہ تعلقات جس دوستی اور اعتبار کی ریشی ڈوری میں بندھے رہے‘ اس ’’شاندار‘‘ ماضی سے قوم باخبر ہے۔ آج بھی دورہ امریکہ کے دوران وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے وفد سے دونوں ممالک کے مابین دوستی کی گہرائی و گیرائی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ نئے وعدے نئی وعید کے موتی تقسیم ہو تے رہے ۔ پرانی امداد اور نئے عہد و پیماں کی بازگشت تھی… 1971ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران قوم امریکی بحری بیڑے کی راہ تکتی رہ گئی مگر ہمارا ’’دوست‘‘ مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا نہ ہو سکا؟ ماضی قریب میں سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد امریکہ نے جہاں افغان جہادی گروپس سے آنکھیں پھیریں وہاں وہ اپنے اہم ترین اتحادی پارٹنر پاکستان کو بھی نظر انداز کر بیٹھا… دیکتھے ہیں آنے والے وقتوں میں خصوصاً 2014ء میں جب نیٹو فورسز افغانستان سے چلی جائیں گی پھرپاک امریکہ کے تعلقات کس دوراہے پر ہوں گے۔23 اکتوبر کی صبح ناشتہ پر وزیراعظم میاں نواز شریف اور امریکی صدر بارک حسین اوباما کی ملاقات ہوئی۔ ملاقات بہت اہمیت کی حامل رہی، جس پر پاکستانی قیادت نے کھل کر اپنے مسائل بیان کئے۔
اس سے قبل22 اکتوبر کو وزیراعظم میاں نواز شریف سے کانگریس کی خارجہ اور کمیٹی کے چیئرمین نے ملاقات میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا پہلے تو وزیر اعظم بات اور سوال ٹال گئے مگر دوسری مرتبہ کے اس سوال پر انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان جاکر یہ معاملہ دیکھیں گے۔ وزیراعظم نے اس سے قبل وزیر خارجہ جان کیری‘ وزیر دفاع چک ہیگل‘ خصوصی ایلچی جیمز ڈونرز اور ڈائریکٹر سی آئی اے جان بریٹن سے ملاقاتوں میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مل کرکام کرنے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے واضح کر دیا کہ پاکستانی فوج بھارت یا افغانستان میں کسی کارروائی میں ملوث نہیں ایسے الزام عائد کرنے والوں کے نام بھی بتائے جائیں۔ امریکی زعماء وزیراعظم کے استفسار کا فوری جواب نہ دے۔ وزیراعظم نے مختلف فورمز اور میزبان شخصیات سے مکالمے کے دوران بتایا کہ ڈرون حملوں سے پاکستان اور قوم کو تشویش ہے یہ ہماری سلامتی اورسالمیت کے خلاف ہیں‘ انہیں رکنا چاہئے‘ ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں400 ڈرون حملوں کے باعث3600 پاکستانی جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ اور اس کے مندرجات کو ترجمان وائٹ ہاؤس نے مسترد کر دیا ہے۔اسی قسم اور ان سے ملتے جلتے خیالات جان کیری کے بھی تھے تاہم امریکی وزیرخارجہ نے پاکستانی قیادت کو یقین دلایا تھاکہ وہ پاکستانی معیشت کو بہتر کرنے میں حکومت پاکستان کے اقدامات کی معاونت کریں گے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کا دورہ کیسا رہا‘ اوبامہ سے ملاقات کے بعد پاک امریکہ تعلقات کس نہج پر ہوں گے اس حوالہ سے سیاسی راہنماؤں کا کیا نقطہ نظر ہے ذیل میں معروف سیاست دانوںکے خیالات کے منتخب حصہ نذر قارئین ہیں۔
٭… سینیٹر چوہدری جعفر اقبال،پاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ ۔۔وزیراعظم کا دورہ امریکہ بہت اہمیت کا حامل ہے ، اس کے خطے پر دور رس نتائج برآمد ہوں گے قوم مطمئن ہے کہ میاں محمد نوازشریف نے امریکی صدر سے ملاقات میں پاکستان کو درپیش ایشو اور مسائل کا مقدمہ بہتر انداز میں پیش کیا۔ یہ درست ہے کہ افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد پاکستان امریکہ تعلقات کا نیا دور شروع ہو گا یہ تعلقات سٹریٹجک نوعیت کے ہوں گے۔ جس پر دونوں ممالک کی قیادت نے اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم کے دورے سے پاکستان کو توانائی بحران سے نبٹنے میں مدد ملے گی۔ گزشتہ دس برس کے دوران افغانستان کے حوالے سے پاک امریکہ تعلقات اہم رہے ہیں اب اگلے برس نیٹو فورسز افغانستان سے جانے والی ہیں توقع ہے کہ اس سے پاک امریکی سٹریٹجک تعلقات کا نیا دور شروع ہو گا۔ بعض ناقدین خیال کرتے تھے کہ وزیراعظم دباؤ کے تحت ڈرون معاملہ امریکہ کے سامنے پیش نہیں کریں گے مگر ہماری لیڈر شپ نے قومی منگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر فلسطین‘ دہشت گردی‘ طالبان ڈائیلاگ ایشو اور ڈرون حملوں سمیت تمام مسائل سے کھل کر اور برابر کی سطح پر بات کی۔
٭… سینیٹر مولانا بخش چانڈیو،پاکستان پیپلز پارٹی۔۔ہم بھٹو دور سے امریکی دوستی کے شاہد ہیں امریکہ کسی کا رفیق نہیں‘ وہ اپنے مفادات کا پرچم بلند رکھتا ہے اور یہ بات کسی سے ڈھیکی چھپی نہیں۔ اپنے فائدے کے تناظر میں وہ اپنے نئے دوست بناتا ہے اور ’’پرانے‘‘ دوستوں سے تعلقات کی تجدید کرتا ہے، ہم بہتر تعلقات کے حق میں ہیں لیکن دوستانہ تعلقات پر بالادستی اور ڈکٹیشن کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہئے۔ ہماری دعا ہے کہ میاں نوازشریف سے ملاقات کے دوران امریکی صدر نے جو وعدے کئے ہیں وہ اپنے سیاق و سباق کے ساتھ پورے ہوں اور ڈکٹیشن نہ ہی ہو تو بہتر ہے۔ میاں صاحب الیکشن مہم کے دوران کشکول توڑنے کی باتیں کرتے رہے مگر نئے قرضے حاصل کرنا بڑا کشکول دکھانا‘ اور قرضہ ری شیڈول کرنا ان کی مجبوری بنتا جا ہا ہے۔ ہمارے صدر اور وزیراعظم جب بیرونی دوروں پر جاتے رہے تو ان پر حرف زنی ہوتی رہی‘ پیپلز پارٹی ایسی سیاست نہیں کرے گی ،صدراور وزیراعظم کے بیرون دورے پاکستان کی عزت و احترام کی علامت ہیں ہمیں ان دوروں کی تکریم کرنا چاہئے۔ پاک امریکی راہنماؤں کی ملاقات میں جو وعدے اور یقین دہانی کرائی گئی ہم دعا گو ہیں وہ قوم کے حق میں بہترہوں۔
٭… سینیٹر نسرین جلیل ،ایم کیو ایم۔۔قوم دعا گو تھی کہ وزیراعظم کا دورہ کامیاب رہے‘ قوم جو توقع رکھ رہی تھی امریکی یقین دہانیوں سے ہمارے مسائل حل ہونے کی کچھ امیدیں بن گئی ہیں 1.6 امریکی ڈالر کی قسط جاری ہونے کی خوش خبری بھی ملی‘ پاکستان کی 30 کروڑ ڈالرز کی امداد بحال ہونے کی امید بندھی اور ڈرون حملوں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ یقیناً ان اقدامات اور فیصلوں سے پاکستان اور قوم کو ریلیف ملے گا ہمیں اپنی معیشت اور اقتصادیات کو بہترکرنے میں مدد ملے گی۔ دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ اور طالبان مذاکرات کے حوالے سے بھی پاکستان نے اپنا مقدمہ بہتر انداز سے پیش کیا۔ امریکی زعماء نے پاکستان کی جغرافیائی حیثیت و اہمیت کو تسلیم کیا۔ ان کا کہنا درست تھا کہ 2014ء میں نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد پاک امریکہ تعلقات کا بہتر اور نیا دور شروع ہو گا۔
٭… سینیٹر الیاس بلور، عوامی نیشنل پارٹی۔۔ہم گذشتہ پانچ سال سے ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں کہ یہ حملے ہماری آزادی‘ سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ہیں۔ اے این پی یہ بھی کہتی رہی ہے کہ ہمیں پرائی جنگ سے خود کو نکال لینا چاہئے۔ اس جنگ میں ہمارے 35 ہزار شہری جاں بحق ہوئے جبکہ املاک کا نقصان اربوں کا ہے۔ آخر ہم کب تک اس ان دیکھی جنگ کا ایندھن بنتے رہیں گے۔ پاکستان کو اپنے اردگرد دوست ممالک سے تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ ہم وزیراعظم میاں نواز شریف کے دورہ امریکہ سے بہت پرامید تھے ۔ جس ماحول میں جس ایجنڈے پر بات چیت ہوئی ہے اﷲ کرے وہ نتیجہ خیز ثابت ہو۔ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستانی قیادت نے اپنے مسائل پیش کئے۔ وزیراعظم دورے سے واپسی پر طالبان مذاکرات پر بھی نتیجہ خیز قدم اٹھائیں‘ معاشی اور اقتصادی صورتحال کے حوالے سے ہمیں بھارت کو دیکھنا چاہئے اس نے پہلے خود کو معاشی قوت بنایا اس کے بعد دیگر مسائل پر توجہ دی‘ آخر ہم کیوں یہ مشق نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم بیرونی انویسٹر کو ترغیب دے رہے ہیں۔ چین ،ترکی اور امریکن سرمایہ کا ر کس طرح دہشت گردی کے ماحول میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینا چاہئے۔
٭… سینٹر کامل علی آغا ،پاکستان مسلم لیگ ق ۔۔ہمیں پاک امریکہ لیڈر شپ کے مابین ملاقات سے کوئی بڑی خبر کی امید نہیں تھی اور آپ دیکھ لیں امریکہ نے کوئی اہم یقین دہانی نہیں کرائی۔ ڈرون حملوں کے بارے میں اس کی خاموشی بتا رہی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ اسے دوسرے بلکہ دوست کی خود مختاری کا بھی احساس نہیں۔ البتہ افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلاء اور طالبان سے مذاکرات‘ ایشوز پر جو لائن دی گئی ہے اس کی روشنی میں انہیں اپنے مفاد کے تحت پالیسی وضع کرنا چاہئے۔ حکومتی زعماء دورے کو بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ دورے کے دوران کشکول بھی ساتھ ساتھ رہا‘ کیا کامیاب دورے ایسے ہوتے ہیں ؟
٭… سینٹر پروفیسر ساجد میر ،صدر جمعیت اہلحدیث۔۔قوم ڈرون حملوں کے بارے میں فکرمند تھی‘ شکر ہے کہ پاکستانی قیادت نے یہ معاملہ اٹھایا۔گو امریکی سائیڈ سے ہماری توقع کے مطابق ’’ردعمل‘‘ نہیں ملا۔ لیکن ڈرون حملوں کو رکنا چاہئے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے پاکستانیوں کی ڈرون حملوں پر تشویش کو امریکی صدر کے گوش گزار کیا۔ جہاں تک سوال تعلقات میں بالادستی کا ہے تو مذاکرات اور تعلقات میں کوئی ملک بڑا اور چھوٹا نہیں ہوتا۔ سب برابر ہوتے ہیں۔ پاکستانی قیادت نے برابری کی سطح پر بات چیت کی تھی!!
٭… سید شاہد گیلانی ،پاکستان تحریک انصاف۔۔ وزیراعظم کا یہ دورہ اس حوالہ سے اہمیت کا حامل تھا کہ میاں میں نواز شریف اور بارک حسین اوبامہ کی ملاقات ایسے ماحول میں ہوئی جب کفر کی قوتیں اسلام دشمنی میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو چکی ہیں۔ اسلام دشمنوں کو شام‘ ایران اور پاکستان کا جوہری پروگرام ایک آنکھ نہیں بھاتا‘ شام نے جب سے جوہری پروگرام روکنے اور معائنے کی پیشکش کی ہے امریکہ کی جانب سے حملہ کا معاملہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ اب دشمن ایران اور پاکستان کے جوہری پروگرام پر اپنی نظریں رکھے ہوئے ہیں۔ اسی ایجنڈا کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم رکھا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بدامنی ‘ سندھ میں ٹارگیٹڈ کلنگ اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کی قیادتوں میں ڈرون حملوں پر کوئی بریک تھرو نہیں آیا۔ ہم پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ قوم کسی خوشخبری کی توقع نہ رکھے۔ ہمیں اپنے اپنے اندر معاملات خود بہتر کرنا پڑیں گے۔ دشمن اپنے نئے ایجنڈے کے تحت مسلمان کو مسلمان سے مروا رہا ہے۔ ایک ہم ہیں جو دشمنوں کو دوستی کی عینک لگا کر سینے سے لگا رہے ہیں۔ ایسے حالات سے اگر کوئی ملک فائدہ اٹھا رہا ہے تو وہ ہندوستان ہے۔ اس نے امریکی آشیر باد سے بھارت نے افغانستان میں درجنوں قونصل خانوں کے ذریعے اپنے ’’فوجی اڈے‘‘ قائم کر لیے ہیں۔اب پاکستان کو ہندوستانی بارڈر کے ساتھ افغان بارڈر پربھی ایکسٹرا پٹرولنگ کرنا پڑ رہی ہے ۔ وزیراعظم میاں نوازشریف اور امریکی صدر بارک اوباما کے درمیان متوقع ملاقات سے کسی بریک تھرو کی قطعی امید نہیں تھی۔پاکستانی قیادت کو ڈرون حملوں اور طالبان سے ڈائیلاگ جیسے ایشو پر قومی امنگوں کے مطابق مظبوط اسٹینڈ لینا چاہیے تھا جبکہ ہم صرف بالا دست قوت کی ہاں میں ہاں ملانے کی پالیسی کوقبول کرتے رہے ، ڈرون حملوں اور دہشت گرد ی کے خلاف پرائی جنگ سے ہم نے اپنے 35 ہزار پاکستانیوں کی قربانی دی ہے ۔ اربوں کی املاک کا نقصان اس کے سوا ہے ۔ دوسروں کی جنگ نے ہماری قومی معیشت اور اقتصادیات ایسی کاری ضرب لگائی ہے جس سے قوم کو بیروزگاری اور مہنگائی کا نہ تھمنے والا طوفان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ میاں محمدنوازشریف صوبہ خیبر پختونخوا کابینہ کے صائب مشورہ پر دھیان دیتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کے لیے اپنی ٹیم کا نہ صرف اعلان کریں بلکہ 9 ستمبر کو ہونے والی اے پی سی کے بعد سے اب تک کی پیش رفت سے قوم کو آگاہ بھی کریں ۔ اسلام دشمنی نے بڑی طاقتوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کر دیا ہے ۔ دشمن بھرپور قوت سے عراق‘ افغانستان ‘ تیونس‘ مصر اور شام کے بعد اب ایران اور پاکستان کے جوہری پروگرام پر بری نظریں ڈال رہا ہے ۔ امریکہ کی طرف سے 1.6ارب ڈالر کی فوجی امداد دراصل اس اخراجات کا حصہ ہے جو امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پاکستانی نقصانات کے ازالے پر دینا تھی یہ امداد اگلے سال ملنے کی توقع ہے ۔ امریکہ کبھی ہمارا رفیق نہیں رہا‘ یہ اپنے مفادات کا دوست ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اپنی آزاد حیثیت سے خود مختار ریاست کے طورپر فیصلے کرنے چاہئیں اور کسی ڈکٹیشن کی پرواہ نہ کرے۔