سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس ، ایچ ای سی وزارت صحت، ڈریپ حکام کی شرکت
اسلام آباد (خبرنگار)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام نے بتایا کہ اس وقت 600نئی ادویات بنانے والے کمپنیوں کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جنہیں کہا گیا ہے کہ وہ عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق ادویات اور قواعد و ضوابط کو اپنائیں، ایچ ای سی کے حکام نے بتایا کہ پاکستان نرسنگ یونیورسٹی کیلئے دو مرتبہ متعلقہ حکام کو لکھا گیا کہ وہ قواعد و ضوابط پورے کریں لیکن تاحال انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کا مثبت استعمال یہ ہے کہ انہیں مختلف ہنر سکھا کر بیرون ملک بھجوایا جائے تا کہ وہ قیمتی زر مبادلہ لے کر آئیں۔ جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس چیئرمین کمیٹی ڈاکٹر ہمایوں کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ایچ ای سی وزارت صحت، ڈریپ کے حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں سینیٹر نصیب اللہ بارزئی کی جانب سے پاکستان نرسنگ یونیورسٹی کے قیام کے بارے میں سوال اٹھایا جس پر ایچ ای سی کے حکام نے بتایا کہ نرسنگ یونیورسٹی کے حکام کو ایچ ای سی کی شرائط پوری کرنے اور قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کیلئے کہا گیا ہے جس پر تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ چیئرمین کمیٹی کے استفسار پر سینیٹر نصیب اللہ نے کہا کہ نرسنگ یونیورسٹی والے 15دن کے اندر اندر جواب دیں گے یہ ایک اہم مسئلہ ہے، جسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ سینیٹر شفیق ترین کی جانب سے کہا گیا کہ ڈریپ نئی ادویات بنانے والی کمپنیوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے، قواعد و ضوابط سخت بنائے جا رہے ہیں، جس پر ڈریپ کے حکام نے بتایا کہ پہلے کوئی قواعد و ضوابط نہیں تھے لیکن بعد میں پاکستان میں ڈبلیو ایچ او یا عالمی ادارہ صحت اور ایف ڈی اے کے معیار کے مطابق ادویات بنانے کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے،2005سے پہلے پہلے ادویات بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ طویل مشاورت کی گئی جس میں انہیں کہا گیا کہ وہ ادویات کو عالمی معیار کے مطابق تیار کریں، ادویات دو سال تک محفوظ رہیں اور کوالٹی پیکنگ معیاری ہو، جس پر وہ عمل پیرا ہیں، نئی کمپنیوں کو اس بارے میں آگاہ کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈریپ کیلئے باعث فخر ہے کہ اس نے پب کے معاملے میں انڈیا، بنگلہ دیش کو پیچھے کیا ہے اور پاکستان خطے میں واحد ملک ہے جسے عالمی ادارہ صحت نے سرٹیفکیٹ دیا ہے۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ پہلے مڈل ایسٹ میں پیرا میڈیکل اسٹاف کی بھرمار تھی لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اب دوسرے ممالک کی افرادی قوت نے ان کی جگہ لے لی، جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس بارے میں ایک پورا ایجنڈا مختص کیا جا رہا ہے، لوگ نجی شعبے میں نرسنگ سکول کھولنا چاہتے ہیں لیکن اس مسئلے میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں جن کا سدباب کرنا ضروری ہے۔ سینیٹر زرتاج قزلباش نے کہا کہ پمز میں دانتوں کے شعبے میں طویل عرصہ سے دانت لگانے والا یونٹ کام نہیں کر رہا ہے، جس پر صحت کے حکام نے بتایا کہ یہ ایک مہنگا علاج ہے جس کی قیمت مریضوں کو ادا کرناہوتی ہے،اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں، تاہم چیئرمین کمیٹی نے اس کو اگلے اجلاس کیلئے موخر کر دیا