سیاسی رویے

ہم یورپین فیشن اور سہل زندگی کی ہر طبقہ کی خواہش کرنا کوئی گناہ بھی نہیں مگر کاش ہمارے سیاستدان جو یورپ کا وزٹ کرتے ہیں بلکہ ان کی ایلیٹ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بھی ہیں مگر بات آکر وہاں رکتی ہے وہاں سے جب واپس آتے ہیں تو کچھ عرصہ تک مہذب رہتے ہیں مگر کیونکہ یہ بیوروکریٹس کے بچے ھوتے تو ہیں تو کیا وہ چند ہزار ڈالر یا روپے کی نوکری تو نہیں کریں گے۔ یہ سیاستدان بنتے اور یہی کچھ پاکستانی وزیروں کا بھی ہے۔ یہی حال ہے پاکستان میں اعلی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے پڑھے لکھے ھوتے ہیں بات بات نکلتی ہے جو پاکستان کا غریب اور اوسط طبقہ ان کو نہ تو سرکاری تعلیمی اداروں کی اچھی تعلیم دی جاتی ہے ہمارے وقت مین سرکاری سکول ھوا کرتے تھے مگر بہتر استاد بھی ہوا کرتے تھے اور جو پرائیویٹ سکول نیچلے طبقہ کے ان کا بھی معیار تعلیم بھی پست ہے۔
اب ہمارے سیاستدانوں کی سیاسی دیکھے اگر کوئی حکومت اچھا کام کرتی ہے جو عوام کے ہر طبقہ کے اچھا ھو تو دوسرا اٹھ کر تاخیری حربے کرکے پلان کو ناقابل برداشت حد مہنگا کر دیتا خواہ میٹرو بس ھو یا اورینج لائن یا موٹر وے ھو یا پشاور میٹرو پروگرام یا سی پیک ھو جو کہ پاکستان ایک موقع مل رہا ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے پاوں پر خود کھڑا ھونے کا ۔ ان سیاستدانوں سے کوئی حساب لینے والا نہیں اور عوام ہیں شعور سے نابلد جب میٹرو میں سستا اور آرام دہ سفر کرتے تو واہ واہ کیا اچھا ٹرانسپورٹ کا نظام ہے مگر جب کوئی سیاستدان گمراہ کن نعرہ لگائے تو اس کے پیچھے ھو جاتے ہیں ۔ یورپ میں عوامی ٹرانسپورٹ انڈر گراونڈ میٹرو اور ریلوے اور ہر ٹرانسپورٹ سہولیات دی جاتی ہیں مگر ہمارے سیاستدانوں کو میٹرو موٹر وے اور اورینج لائن منصوبوں پر اعتراض کیوں رہا ہے؟ ٹھیک یونیورسٹیوں کا زیادہ ھونا بہت لازمی ہے مگر بات پھر یورپ والی آتی ہے۔ گھر بنانے سے پہلے گھر کا راستہ تو اتنا بناو کہ گاڑی اور ٹرانسپورٹ گھر تک اسکے۔ اس طرح ہر ادارے تو تباہ کر کے رکھ دیا اسٹیل مل سے لیکر پی آئی اے جب بندہ غیر ملکی ائرلائن جائن کی تھی تو کولیگ پی آئی اے کی تعریف کیا کرتے تھے مگرکیا دانشمندانہ فیصلہ تھا ایک وزیر متعلقہ وزارت کا کہ پی آئی اے کے پائلٹوں لائنسس کے معاملے کو بین الاقوامی طور اچھال کر نہ صرف تباہ کرکے رکھ دیا بلکہ جگ ہنسائی بھی بڑی بڑی ائرلائنز میں کتنے ہی گھمبیر اندرونی مسائل ھو۔ دنیا بھر میں انتظامیہ اپنے مسائل اندرونی طور پر ہی حل کیا کرتی ہیں ایک ہم ہیں جو ایوان کے فلور پر کیا کچھ کہ رہے ہیں۔ اب رہی سہی کسر افواج پاکستان پر نکل ری جو ملکی یکجہتی کی ضامن ہے کیا کوئی انصاف کا نظام ان سیاستدانوں سے فوج کو بدنام کرنے کا حساب مانگ سکتا ہے؟ میرا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے البتہ مذہبی جماعتوں کے لیے نرم دل ضرور رکھتا ہوں کیونکہ ان کے منشور ملک کی روایات کیمطابق ہیں اللہ تعالٰی پاکستان پر رحمت فرمائے۔ یہاںکوئی روٹی کپڑا کا نعرہ لگا تا رہا، کوئی ایشیا ٹائیگر کا نعرہ لگا کر ملکی قرض چکا نے کی مہم پر غریب تارکین وطن کی رقوم کا ضیاع کرتا رہا۔ کوئی روشن خیالی کا نعرہ لگا تا رہا۔ البتہ ایک مرد مجاہد اٹھا مگر وہ غیروں اور اپنوں کی’’ محبت‘‘ کا شکار ہوگیا ۔ آج قوم نے دیکھا کی وزیراعظم ہاوس نہ تو یونیورسٹی بنا نہ گورنر ہائوس کے بارے میں انقلابی فیصلہ ہوا …یہ ہے ہمارے سیاستدان اور ہمارے سیاسی رویے…!!