فوج میں سینیارٹی کی بنیاد پر اعلیٰ عہدوں پر تقرر کاخوش آئند فیصلہ
وفاقی حکومت نے افواج پاکستان کے نئے سپہ سالار اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے لئے نامزدگی کو حتمی شکل دے دی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کوچیف آف آرمی سٹاف اور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے سمری صدرِ مملکت کو بھجوا دی ہے۔ صدر مملکت اس سمری میں کسی قسم کی نظرثانی کی ضرورت محسوس کریں تو آئین کے تحت وہ دس دن کے اندر اندر اسے نظرثانی کے لئے وزیر اعظم کو واپس بھجوا سکتے ہیں۔ اس صورت میں وزیراعظم پندرہ دن کے اندر اندر سمری دوبارہ صدر کو بھجوائیں گے جو صدر کے دستخطوں کے بغیر بھی ازخود منظور شدہ تصور ہوگی۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت ماہِ رواں کی /29 تاریخ کو ختم ہو رہی ہے اور ان کے جانشین کے طور پر جنرل عاصم منیر کا نام سامنے آنے کے بعد اب اس حوالے سے افواہوں اور قیاس آرائیوں کی جو گرد اڑائی جاتی رہی ہے وہ اب بیٹھ جائے گی۔ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ باہمی مشورے اور خاصے سوچ بچار کے بعد کیا ہے اور اس حوالے سے یہ اصولی موقف اختیار کیا گیا کہ فوج میں جو سینئر ترین جرنیل ہو گا اسی کو آرمی چیف بنایا جائیگا۔ اس سے پہلے ادوار میں وزیر اعظم سنیارٹی کے بغیر بھی آرمی چیف کا تقرر عمل میں لاتے رہے ہیں جو ان کا صوابدیدی آئینی اختیار ہے۔ تاہم اب عمران خان کی جانب سے اس تقرر کے حوالے سے بلیم گیم کی سیاست کی گئی اور وزیراعظم پر اپنی پسند کا آرمی چیف لگانے کی الزام تراشی کا سلسلہ شروع کیا گیا تو وزیراعظم شہبازشریف نے جی ایچ کیو سے سنیارٹی لسٹ طلب کرکے اس میں شامل سب سے سینئر لیفٹیننٹ جنرل کو آرمی چیف کے منصب پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح اس منصب پر سنیارٹی کے اصول کی بھی پاسداری ہو گئی اور اس تقرر پر کسی اعتراض کی گنجائش بھی ختم ہو گئی۔
گوکہ اس عمل میں غیر معمولی تاخیر ہوئی اور اس کی وجہ سے آرمی چیف کے اہم ترین عہدے پر تقرری بھی ہر محفل ، ہر فورم حتیٰ کہ گلی محلوں میں بھی زیر بحث آتی رہی۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی رہیں۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس حوالے سے غیر جمہوری طرزِ عمل اختیار کرکے آرمی چیف کا تقرر متنازعہ بنانے اور فوج جیسے ڈسپلنڈ اور ملک کے معتبر ترین ادارے میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر ہی نہیں ملک سے باہر بھی پاکستان کی سبکی ہوئی اور بھارت جیسے ازلی دشمن کو بھی دنیا کی بہترین فوج اور اس کی قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی کا موقع مل گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے وسیع تر مشاورت کے بعد جب فوج میں اعلیٰ ترین عہدوں پر تقرری کے لئے میرٹ اور سنیارٹی کے اصول کو اپنانے کا فیصلہ کیا تو اس سے ملک دشمن عناصر کے مکروہ عزائم خاک میں مل گئے اور انکی امیدوں پر اوس پڑ گئی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے گزشتہ روز کے اس بیان نے کہ ’’ ایوان ِ صدر کو سمری ملنے پر صدرِ مملکت کے ساتھ مل کر کھیلیں گے‘‘ ،صدرِ مملکت کے کردار کو بھی متنازعہ بنا دیا جبکہ صدر عارف علوی بھی خود کو عمران خان کا ٹائیگر بنا کر اس سمری پر عمران خان سے ہدایات لینے کیلئے انکے گھر زمان پارک لاہور پہنچ گئے جو صدر کے منصب کے ہرگز شایان شان نہیں۔ حکومت نے پی ٹی آئی کی قیادت کی اس مفاداتی سفاک سیاست کو بھانپ کر ہی آرمی ایکٹ کے تحت جنرل عاصم منیر کو فوج کی ملازمت میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اس لئے انکے بطور آرمی چیف کے تقرر میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی سازش تو کامیاب نہیں ہو سکتی البتہ صدر مملکت اور عمران خان کو ضرور سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑیگا۔
آئین کے تحت صدرِ مملکت کا منصب اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ کردار ادا کریں ۔ کیونکہ وہ وفاقِ پاکستان کے صدرہیں۔ کسی ایک جماعت گروہ یا صوبے کے نمائندہ نہیں۔ وہ وفاق کی علامت ہیں۔ وفاق کی تمام اکائیاں ان کے لئے یکساں اہمیت کی حامل ہیں، وہ کسی ایک کی طرف جھکائو پیدا کر کے خود کو وفاق کی علامت ثابت نہیں کر سکیں گے۔ اس سے نہ صرف ان کی ساکھ متاثر ہوگی بلکہ ان کے خلاف مواخذہ کی تحریک بھی پیش ہوسکتی ہے اور آئین سے انحراف پر بھی ان کیخلاف کارروائی عمل میں آسکتی ہے۔ اسی طرح اگر عمران خان حکومت کی مخالفت میں اس حد تک آگے چلے جائیں کہ ملک کے وفاق کو ہی نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہو جائے تو ریاست بھی اس کی ہرگز انہیں اجازت نہیں دے گی۔ الٹا ان کے مستقبل کی سیاست بھی داو پر لگ جائے گی۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بدھ کے روز یومِ شہداء کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے جس طرح فوج کے ماضی کے کردار پر روشنی ڈالی ،ملک کی سیاست میں فوج کی مداخلت کو غیر آئینی قرار دیا اور بحیثیت ادارہ فوج کے اس عزم اور عہد کا اعادہ کیا کہ وہ اب سیاست میں عدمِ مداخلت کے اصول پر کاربند رہے گی۔ اس کی بھی بہرحال تحسین کی جانی چاہیے۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف اور آئندہ کے لئے ان سے سبق سیکھنے کا عندیہ دے کر انہوں نے فوج کے مستقبل کے کردار کو واضح کر دیا ہے۔ پوری قوم اپنی فوج کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتی ہے۔اب اہل ِ سیاست کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اقتدار میں آنے کے لیے ایسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنے کی روش ترک کردیں اور جمہوری رویوں کو اپنائیں۔ نامزد آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کی فرنٹیئرفورس رجمنٹ میں کمشن حاصل کیا ، وہ بہترین پیشہ ورانہ کیریئر کے حامل ہیں ۔ فور اسٹار جنرلز کی تعیناتی کی سینیارٹی لسٹ میں وہ پہلے نمبر پر تھے ۔جنرل عاصم منیر کور کمانڈر گوجرانوالہ بھی رہے ، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس اور ڈی جی آئی ایس آئی کے طورپر خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔ مدینہ منورہ میںتعیناتی کے دوران انہوں نے قرآن پاک حفظ کیا ۔ان کی پیشہ وارانہ مہارت اور شخصی خوبیوں کے پیش نظر یقینِ واثق ہے کہ آرمی چیف کی حیثیت سے وہ ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے احسن طریقے سے عہدہ برأ ہونگے اور فوج کی ساکھ کو مزید بہتر بنا کر ملک و قوم کی بہترین خدمت کے ذریعے ایسی روایت کو پروان چڑھائیں گے جو آنے والے ہر جرنیل کے لئے مشعل ِ راہ ہو گی۔