نظامِ انصاف پر عوام کا اعتماد بحال کریں
پاکستان میں عوام جن اداروں یا شعبوں سے سب سے زیادہ مایوس دکھائی دیتے ہیں بدقسمتی سے عدلیہ یا عدالتی نظام ان سے میں ایک ہے۔ عوام کی مایوسی بے سبب نہیں ہے، یہ ان مسائل سے جڑی ہوئی ہے جن کا پچھلی کئی دہائیوں سے انھیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یقینا اس سب کے صرف عدلیہ ذمہ دار نہیں ہے بلکہ بہت سے ایسے معاملات بھی ہیں جن کا تعلق انتظامیہ کے دائرۂ کار سے ہے لیکن جہاں تک عدلیہ کا اختیار ہے اسے وہاں تک بہتری لانے کے لیے اپنا مثبت کردار ضرور ادا کرتے رہنا چاہیے تاکہ معاملات درست سمت میں آگے بڑھ سکیں۔ اسی حوالے سے عدالتِ عظمیٰ کے صدر منصف جسٹس عمر عطا بندیال کا ریکوڈک صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران کہنا تھا کہ پاکستان کے نظام انصاف میں بہتری کے لیے بہت اقدامات کیے گئے، جن کے نتائج کچھ وقت کے بعد نظر آئیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے نظام انصاف پر اعتماد کرنا چاہیے۔ یہ بات تو بہت اچھی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے اپنے لوگ ہی نظام کے ایک بڑے حصے پر یقین نہیں کرتے، اس پر غیر ملکی کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟ بین الاقوامی یا عالمی سطح پر جب دنیا کے مختلف ممالک کے نظام ہائے انصاف کا موازنہ کر کے رینکنگ بنائی جاتی ہے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک کھلا راز ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے مسائل کی بلی غائب نہیں ہو جائے گی، اسے بھگانے کے لیے ہمیں خود کچھ ایسا کرنا ہوگا جو واقعی کارآمد ہو۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے عوام کا اعتماد نظامِ انصاف پر بحال کرنا ہوگا، غیر ملکیوں کی باری اس کے بعد آئے گی۔