ملکی سلامتی پر کھیلنے کا شوق

مجھے نہیں معلوم کہ یہ سطور شائع ہونے تک صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے تقرر کیلئے وزیراعظم شہبازشریف کی بھجوائی سمری پر دستخط کر چکے ہونگے یا اس پر اپنے پارٹی لیڈر عمران خان کا ’’کھیلنے‘‘ کا شوق پورا کرنے کیلئے اسے اپنی بغل میں دبا کر بیٹھ گئے ہونگے مگر انہوں نے جنرل عاصم منیر کے بطور چیف آف آرمی سٹاف اور جنرل ساحر شمشاد کے بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تقرر کیلئے وزیراعظم کی جانب سے سمری موصول ہوتے ہی جھٹ پٹ ایوان صدر اسلام آباد سے لاہور پہنچ کر اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی زمان پارک والی اقامت گاہ پر ان سے ملاقات کرکے یہ ضرور ثابت کر دیا ہے کہ وہ وفاق پاکستان کے بجائے اس پارٹی کے صدر ہیں جس کی رکنیت انہیں صدر مملکت کے منصب پر فائز ہونے کیلئے چھوڑنا پڑی تھی۔ صدر مملکت کے منصب کے حوالے سے آئین کی دفعہ 41 نے قطعیت کے ساتھ یہ باور کرایا ہوا ہے کہ صدر مملکت وفاق پاکستان کے صدر کی حیثیت سے ریاست کے سربراہ ہونگے اور اس حیثیت میں وہ وفاق اور اسکی اکائیوں کی یکساں نمائندگی کرتے ہوئے قوم کے اتحاد کی علامت بنیں گے۔ صدر مملکت کی اس حیثیت کی مناسبت سے آئین کی دفعہ 43 کی شق ایک اور دو کے ذریعے یہ قطعی پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ سروسز آف پاکستان میں کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہونگے نہ خدمات کے عوض تنخواہ لینے کا حق دینے والا کوئی دوسرا منصب قبول کرینگے۔ اسی طرح صدر مملکت کسی پارٹی کے رکن ہونگے نہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے مجاز ہونگے اور اگر پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن صدر مملکت کے منصب پر منتخب ہو جائیگا تو اسکی متعلقہ نشست صدر مملکت کے منصب کا حلف اٹھاتے ہی ختم ہو جائیگی۔
سیاسی جماعتیں تو اقتدار میں آکر یقیناً اپنے مفادات کی ہی سیاست کرتی ہیں اور اپنے مخالفین کو کچلنے کیلئے ریاستی مشینری اور انتظامی اختیارات استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتیں چنانچہ صدر مملکت کو آئین کے تحت سیاست و حکومت کے معاملات سے اس لئے لاتعلق کیا گیا ہے کہ وہ وفاق کی علامت بن کر ملکی استحکام اور قومی اتحاد و یکجہتی کیلئے اپنا کردار ادا کرسکے۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں صدر کی محض علامتی آئینی حیثیت ہوتی ہے اور اس حیثیت میں وہ سربراہ مملکت تو ضرور ہوتے ہیں مگر برسراقتدار پارٹی یا کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے سیاسی معاملات اور فیصلوں سے ان کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا‘ انہیں ہرصورت غیرجانبدار رہنا اور آئین کی پاسداری و عملداری کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس سسٹم میں اب تک فضل الٰہی چودھری سے ممنون حسین تک جتنی بھی شخصیات صدر مملکت کے منصب پر فائز ہوئیں انہوں نے ایوان صدر میں رہ کر وفاق کی نمائندگی والا آئینی کردار ہی ادا کیا۔ فضل الٰہی چودھری‘ سردار فاروق لغاری‘ جسٹس رفیق تارڑ اور ممنون حسین بھی صدر مملکت کے منصب پر فائز ہونے سے قبل اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے رکن ہی تھے اور پارٹی قیادت کے احکام کے پابند ہوتے تھے مگر صدر مملکت کے منصب پر فائز ہوتے ہی انہیں اپنی اپنی پارٹی کی سیاست سے لاتعلق ہونا پڑا اور وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانا پڑیں۔ چودھری فضل الٰہی کے حوالے سے ایک واقعہ مشہور ہے کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جب بیرونی دورے سے ملک واپس آئے تو صدر فضل الٰہی نے ایئرپورٹ پر جا کر ان کا استقبال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر انہیں صدر کے پروٹوکول کے تقاضوں کا احساس دلایا گیا چنانچہ وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے سے رک گئے مگر صدر ڈاکٹر عارف علوی کے حوالے سے تو ساری روایات،قانونی اور آئینی تقاضے اور وفاق کی علامت ہونے کے ناتے قطعی غیرجانبدارانہ کردار کے معاملہ میں سب کچھ غتربود ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران بھی ایوانِ صدر پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا اور جب وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو صدر عارف علوی تحریک انصاف کے جیالے‘ متوالے اور ٹائیگر کے روپ میں اس پارٹی اور اسکی قیادت کیلئے مکمل جانبداری کے ساتھ کھل کر سامنے آگئے جنہوں نے اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے پارٹی قیادت کے فیصلوں اور احکام کی ہی تعمیل کی اور پی ٹی آئی کی مخالف حکومت کیلئے اسکی انتظامی آئینی ذمہ داریوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کرنے میں انہوں نے ذرہ بھر حجاب محسوس نہ کیا۔ اور اب تو وہ پی ٹی آئی کی قیادت کیلئے خالصتاً ٹائیگر بنے نظر آرہے ہیں۔
اقتدار کے اندر اور باہر عمران خان صاحب کی سیاست سراسر انکی مفاداتی سیاست بنی نظر آتی رہی ہے جنہیں اہم ملکی اور قومی ایشوز پر بھی اپنا کھیل کا شوق پورا کرنے کا جنون رہا۔ وہ سائفر والے ایشو پر بھی اپنے مفادات کے تحت بیرونی سازش والا بیانیہ تیار کرکے اس پر خود بھی کھیلنے کی راہ ہموار کرتے رہے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس پر کھیلنے کے ہدایت نامے جاری کرتے رہے اور اس کھیل میں انہوں نے افواج پاکستان اور عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں اور انکے سربراہوں کی بھد اڑانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اور اب آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ آیا تو وہ وزیراعظم کے ہاتھوں یہ تقرر نہ ہونے دینے کی بڑ مارتے مارتے صدر مملکت کو یہ ہدایت نامہ جاری کرنے تک پہنچ گئے کہ ہم نے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اس اہم تقرری پر کھیلنا ہے۔ اس تقرر کے حوالے سے تو صدر مملکت کا یہی آئینی کردار ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کی جانب سے موصول ہونیوالی سمری پر دستخط کرکے متعلقہ تقرر کے نوٹیفکیشن کے اجراء کی راہ ہموار کرنی ہے۔ اس معاملہ میں آئین نے صدر مملکت کو یہ اختیار ضرور دیا ہے کہ وہ وزیراعظم کی بھجوائی سمری پر دس دن کے اندر اندر دستخط کرینگے یا پھر نظرثانی کیلئے وزیراعظم کو واپس بھجوا دینگے۔ اس صورت میں وزیراعظم پندرہ دن کے اندر اندر دوبارہ صدر مملکت کو سمری بھیجیں گے تو انہیں ہر صورت یہ سمری منظور کرنا ہوگی بصورت دیگر یہ سمری ازخود منظور ہوئی تصور کی جائیگی۔
اس آئینی عمل میں صدر مملکت کو دس پندرہ دن کی مہلت ملتی نظر آئی تو انکے پارٹی لیڈر عمران خان نے یہ دن اپنے کھیل کا شوق پورا کرنے کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں یہ خوش فہمی لاحق ہوگئی تھی کہ جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف نامزد ہونے کی صورت میں وہ ان کا تقررہی ناممکن بنا دینگے کیونکہ 27 نومبر فوج سے انکی ریٹائرمنٹ کا دن ہے۔ اس طرح صدر انکی ریٹائرمنٹ تک انکے بطور آرمی چیف تقرر کی سمری دبائے رکھیں گے اور پھر انکی ریٹائرمنٹ کے بعد انکے بطور آرمی چیف تقرر کی نوبت ہی نہیں آپائے گی۔ اس سفاک کھیل میں ملک اور سسٹم کو جو تباہ کن نقصان ہو سکتا تھا اس کا عمران خان صاحب کو تو اپنی مفاداتی سیاست کے باعث احساس تک نہیں ہوا مگر اس کھیل میں انکے آلۂ کار بنے ہوئے صدر عارف علوی کو اپنے منصب کا تو خیال کرنا چاہیے تھا۔ وہ تو خالصتاً ٹائیگر بن کر ایوان صدر سے نکلے اور لاہور میں عمران خان کی اقامت گاہ پر ان سے ہدایات لینے کیلئے پہنچ گئے۔ اب وہ وزیراعظم کی بھجوائی سمری پر چاہے دستخط بھی کر چکے ہوں مگر ایک پارٹی کے سربراہ کے در پر ان کا دربان بن کر جانا اور انکے آگے کورنش بجا لانا انکی جانب سے صدر مملکت کے منصب کو بٹہ لگانے کے ہی مترادف ہے ۔
حکومت نے جنرل عاصم منیر کو آرمی ایکٹ کے تحت فوج کی ملازمت پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کرکے عمران خان کی اس تقررپر کھیلنے کی خواہش تو برباد کر دی ہے مگر صدر عارف علوی نے عمران خان کیلئے اپنا وفاق کی علامت والا چولا اتار کر اور خالص ٹائیگر بن کر اپنی اور عمران خان کی عاقبت بھی خراب کردی ہے۔ سو کوئلوں کی دلالی کا جو انجام ہوتا ہے وہ اب پوری دنیا کو نظر آجائیگا۔ مجھے اس سارے کھیل میں اس حوالے سے شرمساری کا احساس ہو رہا ہے کہ ماضی میں آئین اور قانون سے کھیلنے والے تو خود کو آئین اور قانون کی پاسداری کا پابند بنا چکے ہیں اور اس حوالے سے سرزد ہونیوالی ماضی کی غلطیوں پر تاسف کا اظہار بھی کر رہے ہیں مگر اس سسٹم میں جن کی ذمہ داری ہی آئین و قانون کی پاسداری یقینی بنانے اور سسٹم کو مستحکم بنانے کی ہے‘ وہ اس پر کھیلتے ہوئے اپنے حق میں ماضی جیسے ماورائے آئین اقدامات کے تقاضے کئے چلے جا رہے ہیں۔ خدا اس ارضِ وطن کو ایسی حریص سیاست سے بچائے رکھے۔