لالہ شیخ رفیق قمر کی یادوں کے چراغ
لالہ شیخ رفیق قمر روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی سے ایک عشرہ سے زیادہ وابستہ رہے معمار نوائے وقت جناب مجید نظامی صاحب کی قربت میں رہے نیوز ڈیسک پر بطور سب ایڈیٹر ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے شفٹ انچارج بنے اردو صحافت کے رموز، رپورٹر ز سمیت، پریس ریلیزوں ، سیاسی ، مذہبی اور سماجی رہنمائوں کے بیانات اور مختلف نیوز ایجنسیوں سے آنے والی خبروں کا نچوڑ نکالنے کی مہارت سے مالا مال تھے جب بھی ملک میں عام انتخابات آتے وہ اپنے چھوٹے بھائی شیخ رشید احمد کی انتخابی مہم کے انتظامات کی دیکھ بھال کرنے کے لئے لاہور سے راولپنڈی پہنچ جاتے جہاں وہ شیخ رشید احمد کے قریبی دوستوں میں سے سعدی روڈ صدر کینٹ کے خواجہ اشتیاق احمد کو ہمہ وقت اپنے ساتھ رکھتے راولپنڈی کے سیاسی جوڑ توڑ پر ان کی بڑی نظر تھی شیخ رشید احمد سے روٹھ جانے والوں کو منا لیتے اور لال حویلی کی رونقیں بڑہاتے اسی دوران شیخ راشد شفیق بھی لال حویلی کے امور سمجھنے لگے جنہوں نے لال حویلی کلاشنکوف کیس میں شیخ رشید احمد کے پابند سلاسل ہونے کے بعد بے پناہ محنت کی اور لال حویلی کو سیاسی ورکروں کی سیاست کا محور بنائے رکھا جس سے لال حویلی کی سیاسی گہماگہمی کبھی ماند نہ ہوئی بہاولپور جیل سے شیخ رشید احمد کی رہائی کیلئے اجتماع اور ریلیاں ہوتیں شیخ رشید احمد کے بڑے بھائی اور شیخ راشد شفیق کے والد محترم شیخ شفیق بھی اپنے بھائی کی سیاست میں کامیابیوں کے لئے بڑے بھائی لالہ شیخ رفیق قمر اور چھوٹے بھائی شیخ صدیق کے ہمراہ رہتے اس میں شک نہیں کہ راولپنڈی کی سیاست میں شیخ، کشمیری اور کاروباری برادری بڑی اہمیت کی حامل ہیں جن کے ووٹ ہمیشہ فیصلہ کن رہے ہیں پیپلز پارٹی کی انتہائی سیاسی مقبولیت کے زمانے میں بھی راولپنڈی کی سیاست کو تینوں شیخ برادران نے اپنے چھوٹے بھائی شیخ رشید احمد کا محور و مرکز بنائیے رکھا 1985 ئ کے غیر جماعتی الیکشن میں شیخ رشید احمد پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو وہ اس اسمبلی میں آزاد گروپ کے ساتھ اپوزیشن بنچوں پر جا بیٹھے اسی عرصہ میں انہوں نے اپنے سیاسی مرکز لال حویلی کو متعارف کرایا دائیں بازو کی سیاست سے وابستگی رکھنے والے راولپنڈی کے اس سیاستدان نے اس وقت کے سیاسی سرخوں کے زمانے میں لال حویلی سے دائیں بازو کی سیاست کا رخ متعارف کرایا جس میں لالہ شیخ رفیق قمر کا رول بھی بہت نمایاں رہا لالہ شیج رفیق قمر نے خود بھی لاہور میں بزنس کیا ان کا اینٹوں کا بھٹہ بھی اہل لاہور میں شہرت رکھتا تھا لالہ شیخ رفیق قمر کے ساتھ نوائے وقت راولپنڈی میں صحافت کرنے والوں میں اس وقت کے رپورٹر شیخ اکرام صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے لالہ رفیق قمر کو بہت عمدہ الفاظ میں یاد کرتے ہوئے کہا کہ میں تواس دن کی اپنی ساری خبریں ہی نیوز ڈیسک پر ان کے حوالے کر تا تھا وہ صحافت اور نیوز ڈیسک میں یکتا دسترس کے حامل صحافی تھے آج جب دوبارہ شیخ اکرام صاحب سے ان کے گھر رابطہ کیا تو پتہ چلا وہ کمر میں تکلیف کے باعث تین یوم سے ہسپتال میں زیرعلاج ہیں جب نوایے وقت راولپنڈی اسلام آباد کے سابق سینئر نیوز ایڈیٹر بشارت سید صاحب سے لالہ رفیق قمر کے حوالے سے فون پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ لالہ شیج رفیق قمر میرے نوائے وقت راولپنڈی میں آنے سے بہت پہلے نوائے وقت چھوڑ کرمستقل طور پر لاہور جا چکے تھے لیکن ان کا ذکر ہمیشہ نیوز روم میں رہتا تھا میرا خیال ہے وہ 1975 ئ میں اپنے کاروبار کی نگرانی کے لئے راولپنڈی سے لاہور چلے گئے تھے لالہ رفیق قمر کا انتقال 17 نومبر 2021ئ کو لاہور میں ہوا لیکن آج بھی ان کی پھوہڑی لال حویلی میں ہے جہاں ان کے چھوٹے بھائی شیخ رشید احمد، بھتیجے شیخ راشد شفیق تعزیت کیلئے آنے والوں کے درمیان بیٹھے ہیں راولپنڈی کے بزرگ شہریوں کی لالہ شیخ رفیق قمر سے بڑی محبتیں اور لگائو کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی شفقت کو یاد کرتے ہوئے سب دلگرفتہ ہیں لالہ رفیق قمر اپنے ساتھ راولپنڈی کی صحافتی یادگار لمحوں سمیت سیاسی میل جول کی ساری یادیں سمیٹ کر دار فانی سے کوچ کر چکے ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور مرحوم کے پسماندگان، دوست احباب کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین