پروپیگنڈا کا جواب کیسے دیا جاسکتا ہے؟
پوری دنیا میں ریاستیں پروپیگنڈا کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں جس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنے عوام کے ذہنوں میں خاص طرح کے تصورات کو ڈالتی اور پختہ کرتی ہیں بلکہ اپنے مخالفوں کو مات دینے یا ان کے پاؤں اکھاڑنے کے لیے بھی اس سے کام لیتی ہیں۔ پروپیگنڈے کے ذریعے کسی خاص نظریے یا تصور کو فروغ دینے کا سلسلہ تو صدیوں سے چل رہا ہے لیکن جدید دور میں معلومات کے ذرائع بڑھنے اور ترسیل کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں آنے سے پروپیگنڈے کا کینوس وسیع ہوگیا ہے اور اس کام میں تیزی بھی آئی ہے۔ آج کی دنیا میں انٹرنیٹ اور بالخصوص سوشل میڈیا کو پروپیگنڈے کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی غالب اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہوتی ہے جو تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ کسی بات کی تصدیق کرسکیں، لہٰذا وہ اپنے نظریات سے مطابقت رکھنے والی ہر سچی جھوٹی بات کو خود بھی بخوشی قبول کرلیتے ہیں اور اسے دوسروں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
لوگوں کی سادہ لوحی یا ان کے پاس وقت کی کمی پروپیگنڈا کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ریاستیں اور گروہ ان رویوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں بہت سے مسائل صرف اس وجہ سے موجود ہیں کیونکہ پروپیگنڈا کے ذریعے طاقتور فریق ان مسائل کی وجوہ کو کبھی پوری طرح سامنے ہی نہیں آنے دیتے، لہٰذا کمزور فریق حق پر ہونے کے باوجود اپنا مقدمہ ٹھیک سے پیش ہی نہیں کر پاتا۔ لیکن ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کوئی فریق کسی طاقتور ریاست، گروہ یا ادارے کی پشت پناہی سے اس بات کا پروپیگنڈا کرتا ہے کہ وہ عددی طور پر اقلیت، کمزور اور ظلم کا شکار ہے اور یوں وہ ایسے کئی فوائد حاصل کرلیتا ہے جو عام حالات میں اسے نہیں مل سکتے۔ ممکن ہے کچھ لوگ اس بات سے متفق نہ ہوں لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر اور کمزور سماجی ڈھانچے کے حامل ممالک میں ایسی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں جہاں مختلف سماجی اور مذہبی گروہ اندرون اور بیرون ملک مختلف فوائد کے حصول کے لیے خود کو کمزور اور مظلوم ظاہر کرتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت بے شمار غیر سرکاری تنظیمیں اسی کام پر مامور ہیں کہ انھوں نے یہاں مختلف سماجی اور مذہبی گروہوں کے روزمرہ مسائل کو، جن کا اکثریتی آبادی کو اقلیتوں سے بھی زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، یوں پیش کرنا ہے کہ جیسے یہ مسائل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور ریاستی اداروں کو اپنے سب کام چھوڑ چھاڑ کر اپنی پوری توجہ ان مسائل پر مرکوز کردینی چاہیے۔ اس سلسلے میں حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنا اور جھوٹے اعداد و شمار بیان کرنا ایک عام سی بات ہے۔ پہلے غیر سرکاری تنظیمیں یہ کام اکیلے ہی کررہی تھیں اور تشہیر زیادہ نہ ہو پانے کے سبب انھیں اس سلسلے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہورہی تھی۔ گزشتہ چند برسوں میں بی بی سی اردو، ڈوئچے ویلے اور وائس آف امیریکا جیسے بیرونی صحافتی اور نشریاتی اداروں بھی اس ’کارِ خیر‘ میں کود پڑے ہیں اور اب وہ ہر سچی جھوٹی خبر کو یوں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ کسی انتہائی سنجیدہ قومی مسئلے پر بات کی جارہی ہو۔ مذکورہ اداروں پر چونکہ مغرب کی چھاپ لگی ہوئی ہے اور جن ممالک میں ان کی بنیادیں ہیں ان کے بارے میں پاکستانی عوام میں بیزاری پائی جاتی ہے چنانچہ اب کچھ مقامی ادارے بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں آگئے ہیں۔ مقامی اداروں کے علاوہ کچھ افراد کے ذریعے ایسی ویب گاہیں بھی چلائی جارہی ہیں جن پر خاص نقطہ ہائے نظر سے متعلق مواد کو بہت واضح کر کے چھاپا جاتا ہے۔
جہاں تک طاقتور فریق کے مسائل کی وجوہ سامنے نہ آنے دینے والی بات کا تعلق ہے، اس حوالے سے ہمارے سامنے بھارت اور اسرائیل کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ دونوں نے سات دہائیوں سے زائد عرصے سے غیر قانونی قبضے کے ذریعے جموں و کشمیر اور فلسطین میں مقامی آبادیوں کے حقوق غصب کر رکھے ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سمیت کوئی ایسا عالمی ادارہ نہیں ہے جو ان دونوں خطوں کے حالات سے واقف نہیں ہے۔ بین الاقوامی برادری بھی ان کے مسائل سے خوب آگاہ ہے۔ دونوں علاقوں سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ستر سال سے زائد عرصہ گزر چکنے کے باوجود ان کے مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان مسائل میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بھارت اور اسرائیل دونوں عالمی برادری میں اپنا خاص طرح کا اثر و رسوخ رکھتے ہیں، لہٰذا نہ تو وہ مسائل اور ان کی وجوہ کو پوری طرح ایک خاص دائرے سے باہر کی دنیا کے سامنے آنے دیتے ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کی جاسکتی ہے۔
جھوٹی معلومات اور غلط اعداد و شمار کی بنیاد پر کیے جانے والے پروپیگنڈا کا توڑ تو تحقیق اور غور و خوض کے ذریعے ممکن ہے لیکن طاقتور کو زیر کرنے کے لیے آپ کو اس سے زیادہ طاقت یا ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طاقت کے مرکز کو کمزور یا تبدیل کردے۔ یوں مقامی حوالے سے پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے لیے تو ایسے افراد اور گروہوں کو سامنے آنا ہوگا جو تحقیق کے ذریعے غیر سرکاری تنظیموں اور ذرائع ابلاغ وغیرہ کے مخصوص پروپیگنڈے کا بھرپور اور مسکت جواب دے سکیں، اور بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر اور صہیونیوں کے غاصبانہ شکنجے میں پھنسے ہوئے فلسطین کے مظلوم عوام کے دیرینہ مسائل کا حل اس نکتے میں پنہاں ہے کہ مسلم ممالک ان کے حل کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہیں اور انتہائی سطح پر اس سنجیدگی کا اظہار کس صورت میں ہوسکتا ہے ۔
٭…٭…٭