زبان ِ یار من ترکی
دنیا کے چند بڑے شہر دیکھنے، مکہ اور مدینہ کی حاضری اور روضہء رسولﷺکی زیارت کے بعدایک خواہش تھی کہ ترکی کے شہر استنبول تک بھی رسائی ہو جائے۔تحریک خلافت کے حوالے سے ترکوں سے محبت گھٹی میں پڑی تھی اس لیئے مصری اور سعودی عرب کے مسلمانوں سے ملنے کے بعداس خواہش کا ہونا فطری تھا۔کسی بھی چیز کے بارے میں مختلف لوگوں کی رائے مختلف ہوتی ہے۔ اس کے لیئے بچپن میں پڑھی ہوئی وہ کہانی یاد کر لیجئے جس میں چھ اندھوں نے ہاتھی کو ٹٹولنے کے بعد اپنے اپنے مشاہدے کے بعد ہاتھی کا حلیہ بیان کیا تھا۔اس کہانی کے تناظر میں مختلف اقوام کے بارے میں ہماری ا ٓراء کو پرکھنے سے کسی کی دل آزاری کا امکان نہیں رہے گا۔ پھر بھی ہم سعودی عربوں کے بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھنا ہی پسند کریں گے لیکن مصری عوام کا ہماراپاکستانی ہونے کا سن کر خوشی کا اظہار اچھا لگا۔یہ ہی توقع لے کر ہم استنبول پہنچے اور پہلے ہی مرحلے پر زبان کی مار کھا گئے۔ان کی زبان تو ترکی تھی لیکن ہم ’’من ترکی نمی دانم‘‘ کی تفسیر بن گئے۔اس پر بھی کوئی افسوس نہیں لیکن ان کا انگریزی سے نا بلد ہونا مشکل میں ڈال گیا۔اس پر ستم یہ کہ جس سے بات کرنے کی کوشش کرو تو کندھے اچکا کر منہ موڑ لیتا۔ایسا سلوک تو فرانسیسی، انگریزی بولنے والوں کے ساتھ کرتے ہیں لیکن اس کا بھی یار لوگوں نے حل ڈھونڈھ لیا ہے۔اگر فرانسیسی سے اردو بولنے لگو تو گھبرا کر وہ انگریزی بولنے لگتا ہے لیکن استنبول میںیہ ترکیب بھی کام نہ آئی۔ہمارا ارادہ سفر نامہ لکھنے کا بالکل نہیں کیونکہ فقط تین دن استنبول کے لیئے تھے اتنے کم وقت میں خود کو ایڈجسٹ بھی نہیں کر پائے تو سفر نامے کے لیئے مواد کیسے حاصل کرتے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ہم لکھتے وقت اختصار کے عادی ہیں اس لیے دو تین باتیں ہی گوش گزار کر سکیں گے۔پاکستان سے چلتے ہوئے ہم نے یہیں سے ایک دن کے’’بوسفورس ٹور‘‘ کے لیئے بکنگ کرالی تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ ٹور میںگائیڈ ہمیں ٹاپ کاپی میوزیم، بلو موسک اور حضرت ایوب انصاریؓ تک لے جائے گالیکن وہ ہمیں مصطفیٰ مسجد دکھا کر موٹر بوٹ پر لے گیا اور کشتی میں بیٹھے بیٹھے استنبول کے یورپی حصے اور ایشیائی حصے دکھاتا رہا۔وہیں سے اس نے بہت دور اشارے سے حضرت ایوب کے مزار کی زیارت بھی کروادی۔اس کشتی کی سیر میں سیکڑوں مسجدیں نظر آئیں جن کی شکل صورت بلو موسک جیسی ہی ہیں۔گائڈ سے یہ ضرور معلوم ہوا کہ مساجد کے میناروں کی تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد بنانے والا کتنا با اختیار تھا۔ایک مینارہ مسجد کسی کم رتبہ حکمران کی ہوتی ہے جبکہ دو مینارہ اس سے زیادہ صاحب اختیار کی ہے۔ کئی میناروں والی مساجد بھی بے شمار ہیں جو بڑے بادشاہوں کی تعمیر کردہ ہیں۔حضرت ایوب انصاری ؒ کے بارے میں اس نے بتایا کہ ان کی وجہ سے استنبول آباد ہوا تھا اور حکمرانوں نے ان کی اہمیت کے پیش نظر ان کے مزار کے پاس دفن ہونا پسند کیا۔اس لیئے ان کے قریب ایک بہت بڑا قبرستان وجود میں آگیا۔اور علاقے کا نام ’’ایوب‘‘ ہو گیا۔اس ہی بوٹ پر ایک گروپ سے ملاقات ہوئی وہ نائجیریا سے آیا تھا۔سارے کالے تھے جن میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی بھی تھے۔انہوں نے بڑی اپنائیت کا اظہار کیا۔زبان کا مسئلہ بھی نہیں اٹھا کہ سب انگریزی بول رہے تھے۔کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ ان کے ایک ساتھی کی سال گرہ ہے۔انہوں نے گائڈ سے کہہ کر ڈیک لگوادیا اور ناچنا شروع کردیا وہی کالوں والے اسٹائل میں۔ناچتے ناچتے ایک خاتون بضد ہوئی کہ ہم بھی ڈانس کریں۔بڑی مشکل سے گھٹنے کی تکلیف کا بہانہ بنا کر جان چھڑائی۔ورنہ عاقبت خراب ہوتی۔یہاں ٹراموں اور بسوں میں کوئی بوڑھے اور خواتین کا لحاظ نہیں کرتا۔یہ ہی ہم نے سنگا پور میں بھی دیکھا تھا۔ایک دن ہم بس میں بیٹھے۔تمام سیٹیں فل تھیں۔ ایک اسٹاپ پر ایک لڑکی سوار ہوئی تو ہم اخلاقاً کھڑے ہو گئے۔اس وقت ہم نسبتاً جوان تھے۔تقریباً آج کے مقابلے میں ۶۲ برس چھوٹے اس لیئے کھڑے رہنے میں کوئی تکلیف نہیں تھی۔لڑکی بیٹھ تو گئی لیکن جب ہم بس سے نہیں
اترے تو اس خاتون سمیت سب مسافروں نے ہمیں حیرت سے دیکھا کہ کیوں کھڑے ہوگئے تھے۔یہ ان کا مزاج نہیں تھا کہ کسی کو سیٹ دی جائے۔ یہ ہی سلسلہ یہاں بھی تھا کہ ہمیں،چھڑی بردار بزرگ ہونے کے باوجود کبھی بھی سیٹ نہیں ملی۔ان کے غیر دوستانہ روئیے سے ہم بہت نالاں تھے۔ایسے میںہم دوسرے دن حضرت ایوب انصاریؓ کے مزار کی زیارت کے لیئے نکلے۔تقریباً تین گھنٹے تک پتہ پوچھتے رہے لیکن کوئی بھی اس نام سے آشنا نہ تھا۔تعجب ہوا کہ لاہور میں اگر کسی بزرگ کے مزار کا پوچھیں تو شاید ہی ایسا کوئی ہو گا جو نہ جانتا ہوگا۔خیرجب پیروں میں درد بڑھ گیا تو ناکام واپسی کا قصد کیا۔ایسے میں ایک دانا سے ملاقات ہو گئی۔ایسے دانا شیخ سعدی کی بوستان، گلستان میں جا بجا ملتے ہیں۔اس نے بتایا کہ ۹۹ نمبر کی بس میں بیٹھ جائو اور حضرت ایوب انصاری نہیں بلکہ فقط ’’ایوب‘‘ کہنا کہ اس علاقے کا یہ ہی نام ہے۔مراد بر آئے گی۔وہ تو یہ کہہ کر چلے گیا لیکن ۹۹ نمبر کی بس تو بعد کی بات تھی بس اسٹاپ کا معلوم کرنا بھی کار دارد تھا۔خدا خدا کرکے بس اسٹاپ اور بس دونوں مل گئے لیکن اتنا زبردست رش تو ہم نے کراچی کی بسوں پر بھی نہیں دیکھا۔لمبی لمبی قطاریں اور ہماری ٹانگوں کا یہ حال کہ ٹوٹ رہی تھیں۔کئی بار سوچا کہ چھوڑو۔کل دیکھا جائے گا لیکن پھر سوچا کل ٹوپ کاپی میں حضرت عثمانؓ کا قران بھی دیکھنا ہے جس پر ان کے خون کے دھبے ہیں۔حضرت علیؓ کی تلواریں بی بی فاطمہؓ کا لباس، حضرت موسیٰ ؑ کا عصا اور سب سے بڑھ کر حضور پاکﷺ کا موئے مبارک بھی دیکھنا ہے۔اس لیئے ۹۹ کی قطار میں شامل ہوگئے۔ درد بڑھ رہا تھا چلنے میں ہی نہیں کھڑے رہنے میں بھی شدید تکلیف ہو رہی تھی لیکن یہ چانس مس کرنا نہیں چاہتے تھے۔خیر بس میں سوار ہوئے حسب توفیق کھڑے ہونے کی جگہ ملی۔کھڑا بھی نہیں ہوا جارہاتھا۔بس نے رینگنا شروع کیا ہی تھا کہ جس سیٹ کے سہارے کھڑے تھے اس پر بیٹھی ہوئی خاتون کھڑی ہوئی اور ہمیں انگلی سے سیٹ پربیٹھنے کا اشارہ کیا۔ہم نے تکلفاً ’’No, No you sit کی گردان کی لیکن وہ بھی زبان ہلائے بغیر انگلی کو سیٹ کی طرف حرکت کچھ اس طرح دیتی رہی کہ ہمیں گمان ہوا کہ نہیں بیٹھے تو اب یہ ہاتھ ماردے گی اس لیے جلدی سے بیٹھ گئے۔بیٹھنے کے بعد خیال آیا کہ سنگاپور کی نیکی کا بدلہ بھی اللہ نے یہیں دلوادیا۔تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت میں ہمیں اس خاتون سے بڑی شرمندگی محسوس ہورہی تھی کہ ہم بیٹھے تھے اور وہ بے چاری کھڑی ہوئی تھی۔کچھ دیر بعد ہم نے ہمت کرکے اس سے’’ایوب‘‘ کا پوچھا تو اس نے اشارے سے بتایا کہ دو اسٹاپ کے بعد۔دو اسٹاپ کے بعد اس نے ہمیں اٹھنے کا اشارہ کیا۔ہم نے تھینکس، شکریہ، گریٹ فل، آئی ایم اوبلائجڈ(I am Obliged) سب کچھ کہا مگر زبان یار کا پتہ ہی نہ چلا کہ ترکی تھی یا یونانی یاہسپانوی۔ بس سے اترے۔ اس ہی وقت اذان مغرب شروع ہو گئی ہم جلدی جلدی لنگڑاتے ہوئے بروقت پہنچ گئے۔نماز کے بعد مزار کا پوچھا تو معلوم ہوا،مسجد کے صحن کی دوسری طرف ہے۔وہاں پہنچے۔یہ خواہش بھی پوری ہوئی۔ باہر نکلتے وقت غلطی کر بیٹھے اور غلط سمت میں نکل گئے۔خیال تھا جہاں اترے تھے وہیں سے واپسی کی بس مل جائے گی لیکن کافی لنگڑانے کے بعد ’’99A ‘‘ نمبر کی ایک بس ملی لیکن وہ ہمیں بالکل دوسری سمت میں لے گئی ہم نے سوچا آخری اسٹاپ پر اس ہی بس سے واپسی کریں گے کیونکہ 99 نمبر کی بس میں سوار ہونے سے پہلے ہم نے99A کی بس بھی اس ہی اسٹاپ پر دیکھی تھی اس لیئے یقین تھا کہ یہ بس واپس وہیں جائے گی لیکن بس ڈرائیور نے اشارے سے بتایا کہ سفر ختم آخری ٹرپ تھا۔پھر دوسری طرف اشارہ کر کے بری الذمہ ہوگیا اور ہمیں مزید لنگڑانے کے لیئے چھوڑ دیا۔کئی لوگوں سے پوچھا کہ واپسی کی کیا صورت ہوگی لیکن پھر یہ ہماری خوش قسمتی کہ ایک ٹیکسی مل گئی اور مزید خوش قسمتی کہ اس کا ڈرائیور انگریزی جانتا تھا اس نے ایک دوسری ٹیکسی میں بٹھا دیا اور ڈرائیور سے ترکی میں بات کی اورہم ہوٹل پہنچ گئے۔پیروں کے درد کایہ حال تھا کہ چل نہیں بلکہ گھسٹ رہے تھے اور اپنے آپ کو کوس رہے تھے کہ کیا ضروری تھا کہ بڑھاپے میں خوارہوتے۔فوراً سوچ لیا کہ ٹاپ کاپی کا پروگرام ڈراپ لیکن صبح ارادہ بدل دیا کہ یہاں تک آگئے تو ضرور دیکھیں گے۔(جاری ہے)