ٹی وی نامہ۔۔۔۔ پاک چین کو پروڈکشن رِشتے اور راستے
1985 میں یہی نومبر کا مہینہ تھا میں اور تاج حیدر، ٹی وی کی گاڑی میں، لانڈھی کی طرف جارہے تھے ۔ وہاں ہمیں کسی صاحب سے ملنا تھا ۔کون صاحب تھے مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ چین سے متعلق کوئی معلومات ہمیں درکار تھیں۔کون سی معلومات؟ یہ بھی یاد نہیں۔ابھی ہم لانڈھی نہیں پہنچے تھے کہ،معلوم نہیں کیسے ہمیں یہ خبر ملی کہ فیض احمد فیض انتقال کر گئے ہیں۔میری فیض صاحب کے ساتھ چند یادیں وابستہ تھیں ، میں اور تاج بہت غمگین ہُوئے۔وہ تما م شام اور رات ہر شخص نے جسے فیض صاحب کے ساتھ ہلکا سا بھی لگائو تھاغمگین تھا۔پھر رات میں جب ہم نے ٹی وی پر اُن کو دفنانے اور اُستاد دامن ؔ کو کسی کے سہارے فیض صاحب کی قبر پر مٹی ڈالتے دیکھا توہر دیکھنے والے کی نگاہوں میں وہ منظر جم کر رہ گیا۔ آہ خاک میں کیاصورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں۔پاک چائنا کوپروڈکشن 1985-86 کے تقریباً دو برسوں پر چھائی ایک طویل کہانی ہے ۔ ہر چند یہ کہانی میرے پاس پڑے کچھ اوراق پر بھی محفوظ ہے مگر الجھی ہوئی گیلی ڈور کی مانند ہے ۔خیر کوشش کرتا ہوں۔ ضیاء جالندھری جو ان دنوں پی ٹی وی کے ایم ڈی تھے مجھ سے اول روز ہی سے خفا تھے۔ لیجے اب خفگی کی کہانی سنانا ہو گی۔ موصوف نئے نئے ایم ڈی بن کر ’’قوم سے خطاب کرنے کراچی تشریف لائے تو صرف پروڈیوسراور چند اعلیٰ افسر ہی سامع تھے۔انہوں نے بھی گروپ سسٹم کے تحت غلاموں کی درجہ بندی اور تعیناتیوں کی بات کی اور ہمیں بڑے فخر سے بتایا کہ ہم ہر گروپ کے
لوگوں کو ہر سنٹر پرایک مخصوص تعداد میں رکھیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ مطلوبہ تعداد سے اوپر ہو جانے والوں کا کیا ہوگا تو انہوں نے فرمایا،’’انہیں ہم ہیڈ آفس میں لے جائیں گے۔‘‘ میرے منہ سے نکل گیا،’’ سنا ہے وہاں تو پہلے ہی نفری ضرورت سے زیادہ ہے‘‘۔ ضیاء جالندھری کا رنگ شنگرف ہو گیا اور انتہائی غُصے میں ’’How dare you..... " کہہ کر مجھ پر برسنے لگے۔ میں کہتا رہ گیا کہ میں نے ہلکے پھُلکے انداز میں بات کی تھی آپ تو ۔۔۔۔۔ بہرحال انہوں نے اس بات کو ہلکا نہیں لیا اور روزِ اوّل ہی سے میں اُنہیں انتہائی ناراض کر بیٹھا ‘جس کا مجھے قطعی کو ئی ملال نہ تھا نہ ہے۔تاہم اس کا تعلق ایک لحاظ سے ’’رشتے اور راستے‘‘ کی کہانی سے ضرور ہے۔وہ یوں کہ اس پروڈکشن کے بعد محترمی اعجاز آصف نے ، جو اُن دنوں پی ٹی وی کے شعبۂ بین الاقوامی تعلقات کے ناظم(کنٹرولر) کے عہدے پر فائز تھے،مجھے ایک فائل دکھائی جس پر پاک چائنا کو پروڈکشن کے لیے تین اسمائے گرامی تجویز گئے تھے۔ ایک محترمی یاور حیات، دوسرے مکرمی شہزاد خلیل اور تیسرے جنابِ محسن علی۔ ضیا جالندھری صاحب نے اُ ن تینوں قابل اور بجا اسماء کو اپنے قلم سے کاٹ کر اس خاک سار کانام لکھا ہُوا تھا۔چنانچہ جب میرے نام کا حکم نامہ کراچی میں موصول ہُوا تو میرے منہ سے بے ساختہ نکلا،’’ پتہ ہے مجھے کیوں اس گرینڈ پروڈکشن کے لیے چُنا گیا ہے؟‘‘ ساتھیوں نے پوچھا ، ’’کیوں؟ میرا جواب تھا ’’دو وجوہات کی بنا پر، اول یہ کہ اگر میں نے یہ پروڈکشن کر لی تویقیناًً بہت اچھی ہو گی، اوردوسرے یہ کہ اگر میں ناکام رہا تو میرے خلاف کافی بڑا ایکشن لیا جا سکتا ہے۔‘‘ تو یہ گویا ابتدائیہ تھا اُس پروڈکشن کا جس کے دوران میں میرے سر کے بال سیاہ سے سفید ہوئے۔ مسودے پر جو ابتدائی طور پر کنور آفتاب احمد کا خیال تھا ‘ تاج حیدر طبع آزمائی میں مصروف ہو گئے۔ تاج حیدر کا انتخاب انتہائی میرٹ پر تھا کہ موصوف کا رجحانِ طبع سوشلزم تھا، وہ تازہ تازہ ، معراج محمد خاں اور طارق عزیز کی طرح ،بھُٹو کے ٹھکرائے ہوئے تھے،دوسرے وہ میرے لیے ’’بارش‘‘، ’’آبلہ پا‘‘،’’پروفیسر(سیریز) لکھ چکے تھے اور حمید کاشمیری کی سیریز ’’کافی ہاؤس‘‘میں بطورِ مشیر شریک رہ چکے تھے۔مسودے پر کام شروع ہو گیا۔ ہمارے اس پراجیکٹ کی اصل ہیروئن قراقرم ہائی وے تھی۔نومبر ہی میں نثار مرزا(ہیڈ آفس میں کیمرہ کے شعبے کے سربراہ اور عالمی سطح پر جانے پہچانے ا سٹل فوٹو گرافر)، تاج حیدر (اسکرپٹ رائٹر) قیصر عباس(ڈیزائنر)اور مجھ سمیت ‘گلگت، ہنزہ اور کے کے ایچ قراقرم ہائی وے کی ریکی کے لیے روانہ ہوگئے۔یہ پانچ سو میل لمبی سڑک ہر ایک میل پر ایف ڈبلیو او کے کسی جوان یا کسی چینی ورکر کے کم از کم ایک مزدور کی جان کا نذرانہ لے چکی تھی۔ایک مثال سے پتہ چل جائے گا کہ کیسے کیسے باہمت لوگ یہاں کام کر چکے ہیں۔ہم ہنزہ سے آگے خنجراب تک جانے کا عزم کیئے ہوئے تھے۔ ہنزہ کے بعد ایک جگہ مرمت کا کام کرتے ہوئے ایک مزدور نے ہمیں روک کر ایک پوٹلی دی کہ آگے کام کرتے ہوئے ایک ورکر بشیر کو دے دیں یہ اُس کا کھانا ہے۔کئی میل آگے جا کر ہمیں ایک مزدور نظر آیا ہم نے پاس جاکر اُے ’’بشیر‘‘ کہہ کر پکارا ، وہ کھڑا ہوگیا اور ہماری جانب مُڑا ہم نے اُسے پوچھا، وہ بشیر ہے ناں؟ اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور پوٹلی ہم سے لے لی۔ آگے جا کر’’ سوست‘‘ کا بیرئیر آیا۔ ہم رُک گئے۔ وہاں سڑک سے نیچے ایک جھونپڑا نما مکان تھا ۔ کوئی ذی روح نظر نہ آرہا تھا ہم نے پکار کی تو جلدی سے ایک آدمی قمیض کے بٹن بند کرتا تیزی سے ہماری جانب آیا۔ ہم نے دیکھا کہ وین سے باہر تقریباً مائنس پندرہ ٹمپریچر میں وہ آدمی سڑک پر لگے بانس کی جانب بڑھا۔ اُس کے پیروں میں صرف ایک ہوائی چپل،بدن پر شلوار اور اوپر کھُلے گریبان کی قمیض تھی وہ سر سے بھی ننگا تھا۔ ہم فی الواقعی اُسے دیکھ کر کپکپانے لگے ۔مختصر سی بات ہوئی کہ ہمارے منہ میں زبان بھی کپکپا رہی تھی،’’او یار تمہیں سردی نہیں لگ رہی؟‘‘ اُس کا جواب تھا، ’’او جی ہم تو برف سے ہی نہاتے ہیں!!!‘‘اور ہم قراقرم ہائی وے کی کہانی فلمانے جارہے تھے !اُس وقت تک منصوبہ یہ تھا کہ یہ پروڈکشن فلم پر کی جائے ، ہم نے ا سکرین پلے بھی سوچنا شروع کر دیا ہُوا تھامگر تقریباً چالیس لاکھ سے اوپر کے خرچے سے بننے والی یہ مجوزہ سینمافلم بیچ میں ہی ویڈیو پر منتقل کر دینے کا حکم آگیا ۔وجہ؟کہ چینی دوست اپنا کھیل ویڈیو پر بنا رہے ہیں تو ہم بھی اُن کے نقشِ قدم پر چل پڑیں۔’ تتبع اور تقلید‘ یہ ہمارے قومی المیے ہیں۔ارادہ تو خنجراب تک جانے کا تھا جو سوست سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے مگر آگے گلیشیئر سے سابقہ آن پڑا جو بہتا ہُوا سڑک پر آچکا تھا اور جمی ہوئی برف حد درجہ سخت اور چکنی ہوتی ہے ۔ گلیشیئر جیسے ہی وین کے نیچے آیاوین کا پہیہ پھسلا اور ہم دائیں جانب ساتھ ہی بہتے چند فُٹ چوڑے دریا میں لڑھکتے لڑھکتے بچے۔ ہم میں سے جس نے بھی گلیشیئر پر پاؤں دھرا‘ پھسلا! اب آگے جانے کا کوئی طریقہ نہ تھا کہ ہماری وین کے ٹائروں پر پھسلاؤ سے بچنے کے لیے چین نہیں تھی ۔ جب تک وین کو پلٹایا گیا اور اس میں کافی وقت لگا، میں اور تاج حیدر ‘ صاف سڑک پر ، ساتھ رکھے گیند بلّے سے کرکٹ کھیلتے رہے ۔ ارادہ تو خنجراب تک جانے کا تھا جو سوست سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے مگر آگے گلیشیئرسے سابقہ آن پڑا جو بہتا ہُوا سڑک
پر آچکا تھا اور جمی ہوئی برف حد درجہ سخت اور چکنی ہوتی ہے ۔ گلیشیئر جیسے ہی وین کے نیچے آیاوین کا پہیہ پھسلا اور ہم دائیں جانب ساتھ ہی بہتے چند فُٹ چوڑے دریا میں لڑھکتے لڑھکتے بچے۔ ہم میں سے جس نے بھی گلیشیئر پر پاؤں دھرا‘ پھسلا! اب آگے جانے کا کوئی طریقہ نہ تھا۔ جب تک وین کو پلٹایا گیا اور اس میں کافی وقت لگا، میں اور تاج حیدر ‘ صاف سڑک پر ، ساتھ رکھے گیند بلّے سے کرکٹ کھیلتے رہے ۔ وین مُڑی اور لوٹ کے بُدھو گھر کو آئے۔واپس کراچی آ کر چین کے ریکی ٹور پر جانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ پی آئی اے کی فلائیٹ PK-750سے میں، تاج اور قیصر عباس ۱۷ ِاکتوبر ۱۹۸۵ کی سہ پہر پاکستان کے معیاری وقت تین بج کر تیس منٹ پر کراچی سے اُڑے اوراُسی شام ٹھیک پانچ بج کر تیس منٹ پر بیجنگ کے ہوائی مستقر پر اُترے۔حبیب الرحمٰن صاحب اور چین کی جانب سے ایگزیکٹو پروڈیوسر مسٹر فانگ ہمیں لینے آئے ہُوئے تھے۔جیسا کہ اُن دنوں کا ایک مقولہ تھا ، ’’ناشتہ نیو یارک میں، کھانا لندن میں اور سامان ٹوکیو میں۔‘‘ بیجنگ پہنچنے پر پتہ چلا کہ میرا سوٹ کیس واقعی ٹوکیو پہنچ چکا تھا۔ حبیب الرحمٰن صاحب ،فرسٹ سیکریٹری پاکستان ایمبیسی کی وساطت سے پی آئی اے کے طوطے کی ناک والے ایک معنک افسر کو رپورٹ لکھوائی گئی جس نے نہایت وثوق سے یقین دلایا کہ میرا سوٹ کیس چند ہی دنوں میں بیجنگ پہنچ جائے گا (افسوس اُس معنک کا یقین پاکستان کے بیشتر رہنماؤں کی طرز کا نکلا !) چنانچہ آج کے دن تک نہ میرا سامان اور نہ ہی اُس کا معاوضہ مجھے ملا ہے ! میںروایتی عاشقوں کی طرح ع آئے عُشّاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر‘کے مصداق اور حیرتی آئینے کی طرح بیجنگ ایئر پورٹ پر ع منہ تکا ہی کرے ہے جس تِس کا‘کی مجسم مثال بن کر رہ گیا ۔ایر پورٹ سے شہر بیجنگ کا راستہ خاصا طویل تھا۔ مسٹر فانگ ہمیں بیجنگ کے لیڈو ہوٹل میں، کافی بزرگ پراجیکٹ ڈائریکٹر مادام روآن رؤلین سے طے شدہ ملاقات کراکے، بازار سے چند اشیائے ضروریہ خریدوا کر، ایک انگریزی مترجم کی سپرداری میں دے کر چلے گئے۔مترجم خاصے کی چیز تھا۔(جاری ہے)