عمران خان کے پچاس لاکھ گھر
شہر ہو یا گاؤں ، اپنا گھر ہر انسان کی خواہش بلکہ جبلت ہے۔ اپنا گھر اپنا ہی ہوتا ہے چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا اسی لئے کہا جاتا ہے میرا گھر میری جنت ۔وقت کے ساتھ ایک عام انسان کیلئے اپنے گھر کا حصول مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ایک غریب ا ٓدمی کیلئے زمین کی قیمت ہمیشہ اسکی پہنچ سے باہر ہی رہی ہے خواہ وہ شہر کی زمین ہو یا کسی دوردراز گاؤں کی ۔ اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ بلڈنگ میٹریل کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونا شروع ہوگئی ہیں۔2018ء کے الیکشن کی تیاریوں کے دوران تحریک انصاف اور عمران خان نے غریب عوام سے جہاں اور بہت سارے وعدے کئے تھے وہیں ایک وعدہ یہ بھی کیا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد مستحق لوگوں کیلئے پچاس لاکھ گھر بنائے جائیں گے جس میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کیا جائے گا۔عمران خان نے کہا تھا کہ اس سکیم سے انڈسٹریل سیکٹر میں کاروبار بڑھے گا اور لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔یہ گھر کم آمدنی والے اور ضرورت مند خاندانوں کو دئیے جانے ہیں اور اس سکیم کا اطلاق پورے پاکستان پر ہوگا۔ جب اپریل 2019ء میں عمران خان نے نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم لانچ کی تو اُنہوں نے بتایا کہ میری ترجیحات میں صحت ، تعلیم اور روزگار اوپر تھیں اور گھر بنانا میری ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔ پھر اچانک ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ ایک شخص جو ریٹائر ہونے والا تھا اس نے صرف اس لئے خودکشی کرلی تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اسکے پاس رہنے کے لئے گھر نہیںتھا۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ ایک غریب آدمی کیلئے گھر کتنا ضروری ہے اور اسے تعمیر کرنا کتنا مشکل۔ پاکستان کو مجموعی طور پر فی الحال ایک کروڑ گھروں کی ضرورت ہے۔ دیہاتوں سے نکل کر شہروں میں منتقل ہونے والے خاندانوں میں پاکستان اس وقت جنوب ایشاء میں سب سے آگے ہے۔ ایک انداز ے کے مطابق 2025ٗ ء تک ملک کی آدھے سے زیادہ آبادی شہروں میں منتقل ہو چکی ہوگی۔ اس حساب سے گھروں کی ضرورت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔عمران خان کی نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم ایک ایسا منصوبہ ہے جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے بلکہ اپوزیشن کی جماعتوں نے اس سکیم کا مذاق بھی اڑانا شروع کر دیا تھا۔ نئے نئے سیاست میں آنے والے لیڈران جلسوں میں پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کو گھر مل گیا؟ کیا آپ کو روزگار مل گیا ؟ یہ سوال کرتے ہوئے وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ خود اور انکے آباؤ اجداد گزشتہ چالیس سال سے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا رہے ہیں لیکن آج تک عوام کو نہ روٹی ملی، نہ کپڑا اور نہ ہی مکان۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی بلند حوصلگی ، ہمت اور استقامت کی بدولت نیا پاکستان ہا ؤسنگ سکیم بڑی تیزی سے کامیابی کی منازل طے کرنا شروع ہو چکی ہے ۔عوام میں اُمید کی ایک کرن جاگ چکی ہے کہ انکے پاس بہت جلد اپنی چھت ہوگی جسکے نیچے وہ آرام اور سکون کے ساتھ عزت کی زندگی جی سکیں گے ۔ تمام مشکلات کے باوجود عمران خان اور اسکی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ مستحقین میں کم قیمت والے زیادہ سے زیادہ گھر تقسیم کئے جائیں تاکہ ایک فلاحی ریاست کا بنیادی فرض ادا کیا جا سکے ۔ اس عظیم مقصد کی تکمیل کیلئے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ اتھارٹی تشکیل دی جا چکی ہے جس نے مختلف منصوبوں کے تحت کام جاری کر دیا ہے جس میں پرائیوٹ اور سرکاری زمینوں پر گھروں کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے ۔ اس کام میں تیزی لانے کیلئے نیا پاکستان ہائوسنگ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بھی بن چکی ہے جس نے بہت سے متروک منصوبوں کو دوبارہ شروع کیا ہے ۔ ان منصوبوں میں گرین انکلیو 1بارہ کہو پراجیکٹ شامل ہے جس کے تحت دسمبر 2019ء میں 3282پلاٹ درخواست گزاروں میں دئیے جا چکے ہیں ۔ سکائی گارڈن سکیم کے تحت 5198پلاٹ الاٹ کئے جاچکے ہیں ۔ لائف سٹائل ریذیڈنسی اپارٹمنٹس سکیم کے تحت 3240پلاٹ حقدار وں میں تقسیم کئے جا چکے ہیں ۔ یہ سکیم G-13اور کشمیر ایونیو G-15میں واقع ہے ۔ چکلالہ ہائٹس راولپنڈی سکیم کے تحت 3432پلاٹوں پر گھروں کی تعمیر کی جائے گی جسکے لئے تمام ضروری کارروائی مکمل کی جاچکی ہے ۔سکائی لائن اپارٹمنٹس اسلام آباد سکیم کے تحت 3945پلاٹس اور لائف سٹائل ریذیڈنسی سکیم لاہور کے تحت 1258پلاٹس پر گھر بنانے کی تیاری مکمل ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ نے صوبائی حکومتوں سے بھی معاہدے کئے ہیں جن کے تحت بلوچستان میں ماہی گیروں کیلئے 16ہزار فلیٹس اور جنرل پبلک کیلئے 18ہزار فلیٹس اور 12ہزار پلاٹ دئے جائیں گے ۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں 750فلیٹس اور آزاد جموں کشمیر میں 798فلیٹس دئیے جائیں گے ۔ گھروں کی تعمیر کی انڈسٹری کو ترقی دینے کیلئے حکومت نے بلڈنگ مٹیریل میں زبر دست سبسڈی جاری کی ہے جس سے ملک میں کرونا وائرس کے باوجود زبردست تیزی سے کام شروع ہوا ہے ۔ ملک میں روز گار کے مواقع پیدا ہو نے کے ساتھ ساتھ 40سے زیادہ محکموں میں کام کے مواقع پیدا ہونگے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند مہینوں میں 127کنسٹرکشن پرجیکٹس پر 63بلین روپے خرچ کئے جا رہے ہیں جبکہ 114دیگر منصوبوں پر 109بلین روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ ان منصوبوں میں سے 44لاہور میں ، 61کراچی میں ، 30اسلام آباد میں ، 19راولپنڈی میں اور 10منصوبے فیصل آباد میں شروع کئے جا چکے ہیں ۔ جو لوگ نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام میں پیسہ لگا رہے ہیں انہیں ٹیکس میں 90فیصد تک چھوٹ دی جارہی ہے ۔ نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام کے تحت ملک میں سالانہ 4لاکھ گھر بنائے جائیں گے ۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی گوں ناگوں مصروفیات کے باوجود بذات خود سارے منصوبوں کی نگرانی کر رہے ہیں ۔ ان منصوبوں کی مالی معاونت سٹیٹ بینک کررہا ہے جسکے اشتراک میں نیشنل بینک ، حبیب بینک، الائیڈ بینک ، میزان بینک ، بینک آف پنجاب اور بینک الحبیب شامل ہیں ۔یہ بات بھی قا بل ذکر ہے کہ ہاؤسنگ پروگرام کے ساتھ ساتھ حکومت نے بغیر سود قرضوں کی سہولت دینے کا بھی اعلان کیا ہے تا کہ غریب آدمی کو گھر بنانے میں آسانی ہو ۔ اس ضمن میں منسٹری آف ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور اخوت اسلامک مائیکرو فنانس کے درمیان معاہدہ طے پا چکا ہے جس کے تحت مستحق افراد کو دس لاکھ تک قرضہ دیا جائے گا جس پر کوئی منافع نہیں لیا جائے گا۔اس مقصد کیلئے حکومت نے اخوت اسلامک مائیکرو فنانس کو 5ارب روپے دئیے ہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ جب تک تحریک انصاف کی حکومت ہے اس وقت تک ان منصوبوں میں سے بہت سارے منصوبے مکمل ہو چکے ہوں گے۔ عمران خان کے غریب لوگوں کو گھر دینے کے جذبے کو سیاست کی نذر ہونے سے بچانا چاہیئے اور مخالفین کے بے جا اور غیر ضروری پراپیگنڈے سے بھی بچانا چاہیئے ۔ وزیر اعظم عمران خان کی انتھک محنت اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے یہ منصوبے کامیابی سے ضرور ہمکنار ہونگے۔