اسرائیل کو تقسیم کرنے کے حوالے سے ملک میں بحث جاری ہے۔ سیاسی حلقوں میں بھی یہ گفتگو کئی روز سے ہو رہی ہے۔ اچانک اہم حلقوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہونے والی گفتگو کا شروع ہونا بلاوجہ نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں پس پردہ ایسی چیزیں ضرور ہو رہی ہوتی ہیں جو طریقے طریقے سے عوام کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اس کے لیے مختلف راستے یا ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ ایسے حساس معاملات کے پیچھے کچھ نا کچھ ضرور ہوتا ہے۔ بحث بلاوجہ نہیں ہوتی اس کا ایک مطلب عوامی ردعمل جاننا ہوتا ہے۔ ایسے حساس معاملات میں طویل المدتی اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے گفتگو، بحث و مباحثے کا آغاز کیا جاتا ہے پھر آہستہ آہستہ راہ ہموار کی جاتی ہے۔ لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ دھیمے انداز میں کام چلتا ہے اور چلتا رہتا ہے پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب لوگ یا ایسی ناپسندیدہ گفتگو سن سن کر تنگ آ جاتے ہیں یا پھر وقت اور حالات انہیں اس قابل نہیں چھوڑتے کہ وہ مزاحمت کر سکیں یوں چار و ناچار جسے ہم ناقابلِ قبول سمجھ رہے ہوتے ہیں اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اللہ نہ کرے کہ ہمارے ساتھ اسرائیل کے معاملے میں ایسا ہو، اللہ نہ کرے کہ ہم تاریخ میں مسلمانوں کے دشمنوں کی صف میں کھڑے نظر آئیں، اللہ نہ کرے کہ ہم ہزاروں، لاکھوں مسلمانوں کے قتل اور بربادی کی وجہ بننے والے بلاک کا حصہ ہوں، اللہ نہ کرے کہ ہم فلسطین پر ظلم و بربریت کرنے والے اسرائیل کو تسلیم کرتے پھریں۔ اس ناجائز کو ریاست کو بھلے ساری دنیا تسلیم کر لے ہمیں کبھی اس کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ ہمارے پیارے نبی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے دشمن ہیں، یہ بدبخت ختم نبوت کے دشمن ہیں، یہ بدبخت حرمت رسول صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے دشمن ہیں۔ ہم کیا منہ لے کر حضور صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں پیش ہوں گے۔ ہم کیا کہیں گے کہ ہم بہت کمزور تھے، قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے، غربت میں تھے، مہنگائی کے مارے ہوئے تھے، کیا ہم وہاں یہ عذر پیش کریں گے۔ اللہ ہمیں ان برے لمحات سے محفوظ رکھے۔ آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم تو رحمت اللعالمین ہیں۔ دونوں جہانوں میں برکتیں آپ سے ہیں۔ کیا ہم نے نہیں پڑھا
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
حکومت کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی خبروں پر سخت ردعمل دیا ہے ہم حکومت سے ایسے ہی سخت ردعمل کی توقع ہے۔ ہم اسرائیل کے مخالف ہیں اور رہیں گے۔ کسی بھی حکومت کو اس ناجائز ریاست کو قبول کرنے کی جرات نہیں ہونی چاہیے حتیٰ کہ اس سوچ کی بھی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ اس معاملے میں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز پاکستان کے عوام ہیں۔ عوام کو بیدار رہنا ہو گا، انہیں ایسی ہر حرکت اور تبدیلی پر نظر رکھنا ہو گی۔ عین ممکن ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے ہمیں لالچ دیا جا رہا ہو، ہمیں دیگر اسلامی ممالک کی مثالیں بھی دی جا رہی ہوں گی، ہمیں ڈرایا دھمکایا بھی جا رہا ہو گا، ہمیں کمزور معیشت اور بدانتظامی کے نقصانات بھی گنوائے جا رہے ہوں گے، ہمیں عالمی دنیا کے شدید ردعمل بارے بھی آگاہ کیا جا رہا ہو گا۔ اس کے باوجود بھی اسرائیل کے معاملے میں ہمارا موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آنی چاہیے۔ ہم کمزور و تنہا ہو سکتے ہیں، ہم مقروض و تنگ دست ہو سکتے ہیں لیکن ہم شہداء کے خون کا سودا کرنے والوں میں ہرگز نہیں ہو سکتے، ہم شہادت کو ہنس کر گلے لگانے والوں میں سے ہیں۔ ہم آزادی کے لیے لڑنے والے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے بعد بھی جو آئے وہ یہ جان کے کہ جو بھی ہمارے شہدا کے خون کا سودا کرنے کی کوشش کرے گا یہ قوم اس کا راستہ روکے گی یہ قوم اسے معاف نہیں کرے گی۔
میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی والدہ کے انتقال پر پنجاب حکومت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو صرف پانچ روز کے لیے پیرول پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کو پندرہ دن کے لیے درخواست جمع کروائی گئی تھی اس معاملے میں حکومت کو دل بڑا کرنے کی ضرورت تھی۔ پانچ دن ہوں یا دو ہفتے کیا فرق پڑتا ہے۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف یہیں موجود ہیں انہوں نے کہاں چلے جانا تھا۔ حکومت نے تنگ نظری کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب میاں نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے تو میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو نماز جنازہ اور تعزیت کے لیے آنے والوں سے ملنے کے لیے منااب وقت دینے میں کیا قباحت ہے۔ اخلاقی و سیاسی اعتبار سے حکومت نے تنگ نظری کا مظاہرہ کیا ہے ایسے فیصلوں سے سیاسی جماعتوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں انہیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ کوتاہی کسی ایک کی طرف سے بھی ہو گاڑی نہیں چل پاتی۔ بیگم شمیم اختر کے انتقال پر سیاسی شخصیات کی طرف سے تعزیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ میاں نواز شریف کی والدہ کے انتقال کے موقع پر بھی مزاح نکالا جا رہا ہے، طنزیہ جملے کہے جا رہے ہیں، مریم بی بی کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے حالانکہ یہ موقع مذاق بنانے کا ہرگز نہیں ہے۔ ہمیں کسی کے انتقال پر سیاسی دشمنی نہیں نبھانی چاہیے نا ہی ایسے معاملات میں سیاسی بیان بازی کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنی اموات کو سیاسی بیان بازی سے محفوظ رکھنا چاہیے۔
عوام تیار رہے کیونکہ جس انداز میں شوگر مل مالکان اور گنے کے کاشتکاروں کے مابین تنازعات چل رہے ہیں اور حکومت جس انداز میں اس معاملے سے لاتعلق ہوئی ہے اس کے بعد ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ آنے والے دنوں میں چینی کا ایک اور بحران ہمارا منتظر ہے۔ حکومت نے جس طرح اس معاملے سے خود کو الگ کیا ہے اور اگر یہ معاملہ ایسے ہی آگے بڑھتا ہے تو آئندہ سیزن بھی چینی ایک سو دس پندرہ یا ایک سو بیس روپے فی کلو دستیاب ہو گی۔ حماد اظہر کی وزارت نے شوگر ملز ایسویشن کی طرف سے لکھے جانے والے خط پر جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر کسان گنے کی زائد قیمت مانگ رہا ہے تو یہ معاملہ کسان اور شوگر ملز مالکان کا ہے اسے باہمی طور پر حل کیا جائے۔ وزرات صنعت و پیداوار نے گنے کی عدم دستیابی کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال ملک میں گنے کی اضافی فصل ہوئی ہے، پنجاب میں گنے کی فصل گزشتہ سال کی نسبت بیس فیصد زائد ہے۔
حکومتی موقف ظاہر کرتا ہے کہ وزراء خود کو مرحلہ وار عوامی مسائل سے الگ کرتے جا رہے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ حکومت نے عوام کو مل مالکان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ پہلے گنے کے کاشتکاروں پر چھوڑ دیا ہے۔ پچپن روپے فی کلو سے چینی شروع کر کے ایک سو پندرہ پر لے جانے والے حکمران فیصلہ کر چکے ہیں کہ ملک میں چینی ایک سو پندرہ یا بیس روپے پر ہی فروخت کرنی ہے۔ حکومت کی اشیاء خوردونوش کی قیمتوں اور ان اشیاء کی دستیابی کے حوالے سے حکومتی پالیسی بے بسی اور نالائقی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایسے فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام کو ذہنی طور پر تیار کر رہے ہیں وہ موجودہ مہنگائی کے ساتھ زندہ رہنے کی عادت بنالینی چاہیے۔ جس کے وسائل کم ہیں وہ پہلے ہی خوار ہیں اور حکومتی طرز عمل ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ لوگوں کو اسی ماحول میں زندگی کو اپنانا ہے۔ حکومت کا عوام سے کچھ لینا دینا نہیں اور رہی بات وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر کی تو وہ خود کو دو ہزار تیس میں وزیراعظم کے طور پر دیکھ رہے ہیں یعنی عوام کی زندگی مشکل بنانے کا جو ادھورا مشن وہ دو ہزار تیس میں پورا کریں گے۔ جب حکومت کاشتکاروں سے معاملات طے نہیں کر سکتی، جب حکومت شوگر ملز مالکان کے ساتھ معاملات طے نہیں کر سکتی تو پھر ایسی حکومت سے بہتری کی توقع کیسے کی ہے۔ حکومت اگر کسانوں اور مل مالکان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم نہیں کر سکتی تو پھر انہیں مناسب فورم بتا دے جہاں سے وہ رجوع کر سکیں۔ یہی وہ رویے ہیں جس کی وجہ سے آج ہر دوسرے شعبے میں تنزلی دکھائی دے رہی ہے۔ چینی کی پچھہتر سے اسی روپے میں فروخت ہو سکتی ہے اگر حکومت کو یہ اندازہ ہو کہ یہ کیسے ممکن ہے لیکن اگر حکومت کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ مارکیٹ کو کیسے قابو کرنا ہے تو پھر عوام کا کیا حال ہو گا یہ اندازہ لگانے کے لیے سوچ بچار کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم لگ بھگ ایک سال سے بالخصوص آٹے اور چینی کے بحران سے گذر رہے ہیں پی ٹی آئی کے وزراء کی مستقل مزاجی کو داد دینا ہو گی انہوں نے دلجمعی اور لگن سے اپنی جماعت کو غیر مقبول بنانے اور عوام کی زندگی کو مشکل بنانے کے لیے کام کیا ہے اور اس میں انہیں کامیابی بھی ملی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024