بدھ ‘ 9؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 25؍ نومبر 2020ء
طاہر اشرفی سے ملاقات۔ فرانس سے معافی نہیں مانگوں گی۔ شریں مزاری
شریں مزاری کی بے باکی اور نڈر طبیعت سے سب واقف ہیں وہ ’’کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے کے مصداق‘‘ ہر بات منہ پر کہنے کی عادی ہیں۔ اسی لیے انہیں منہ پھٹ بھی کہا جاتا ہے۔ مگر کیا مجال ہے کہ وہ کسی تنقید سے گھبراتی ہوں پریشان ہوتی ہوں۔ اب فرانس کے صدر نے شامت اعمال سے سرور کائنات خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کر کے اپنی دنیا و عاقبت بربادکر لی اور اُلٹا اسے آزادیٔ اظہار کا نام دیا۔ اس پر اُمت مسلمہ نے اسکے خلاف آواز بلندکرنے کے ساتھ بھرپور احتجاج بھی کیا جس پر فرانسیسی صدر چیں بجیں ہیں۔ محترمہ شریں مزاری نے بھی اس حوالے سے فرانسیسی صدر کی خوب خبر لی۔ ان کا بیان کچھ ایسا تھا کہ اچھے خاصے مردانہ بھائی کہلانے والے بھی اس کی تاب سخن نہ رکھتے ہوں گے۔ اس پر فرانسیسی سفیر میں اچانک تہذیب و شائستگی کا جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے حکومت سے احتجاج بھی کیا۔ یہی شائستگی و احترام کا تہذیب کا فوارہ اس وقت فرانسیسی حکام کے دل میں کیوں نہیں پھوٹا خشک پڑا رہا جب فرانسیسی صدر نے رہبر عالمؐ کے حوالے سے دریدہ دہنی کی تھی۔ اسے اس وقت کیوں شائستگی اور تہذیب کا درس کیوں نہ دیا گیا۔ شریں مزاری صاحبہ نے معافی نہ مانگنے کا اعلان کر کے کروڑوں مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں۔ شاباش ہے ان پر۔ ان کے ڈٹ جانے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے دل میں سرکار دو عالم سے محبت کا جذبہ دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ موجودہے۔
٭٭٭٭
بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار خاتون افسر اے ایس پی کوئٹہ کینٹ تعینات
مبارکبادکے قابل ہے پشین سے تعلق رکھنے والی یہ بلوچستان کی بیٹی پری گل جس نے مردوں کی دنیا میں قدم قدم پر مقابلہ کر کے اپنی حیثیت منوائی اور آج ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ بلوچستان ہی کیا پاکستان کے پسماندہ ناخواندہ دور دراز علاقوںمیںخاص طور پر ایسے علاقوںمیں جہاں مذہبی اثرات اور سماجی روایات بے حد مضبوط ہیں ، کسی خاتون کیلئے تعلیم حاصل کرنا وہ بھی دنیاوی اعلیٰ تعلیم نہایت مشکل کام ہے۔ بڑے بڑے حوصلہ مندمردبھی اس معاملے میں کنی کتراتے ہیں۔ مردوںکے اس معاشرے میں لڑکیاں کس طرح تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو خیبر پی کے اور بلوچستان کے قبائلی معاشروں سے واقفیت رکھتے ہیں۔ سو اب پری گل صاحبہ کو چاہئے کہ وہ اس محکمہ میں بھی اپنے عمل سے شجر سایہ دار کی مثال بن جائیں۔ مظلوموں کی داد رسی کیلئے کمربستہ رہیں ، جو کام مردحضرات سے نہیں ہو پاتا یعنی سفارش اور دبائو کے خلاف ڈٹ جائیں تو مدتوں انہیں لوگ یادرکھیں گے۔ وہ تبدیلی کی نادر مثال قائم کر سکتی ہیں۔ ورنہ صرف افسری تو سب کرتے ہیں ان کی ہم نام ایک پری گل آغا بلوچستان کی وزیر رہ چکی ہیں۔ انکی یاد صرف بلوچی سٹریٹ اور سیٹلائٹ ٹائون کوئٹہ میں قائم ’’ناز درس جائ‘‘ سکولوں کو دیکھ کر ہی آتی ہے۔ امید ہے نئی اے ایس پی آفیسر پری گل لوگوں کے دل فتح کر کے امر ہو جائیں گی۔
٭٭٭٭٭
ادارہ امراض قلب میں کرپشن کی نشاندہی کیلئے خط لکھنے والا ڈاکٹر ملازمت سے فارغ
بھئی اس انسانیت کا درد اپنے دل میں رکھنے والے ڈاکٹر کو شاید یہ مشورہ اسی دلِ ناتواں نے دیا ہو گا جس میں سب کا درد بستا ہے۔ اب وہ اس کا نتیجہ بھی بھگتے۔ کیا ڈاکٹر صاحب نہیں جانتے تھے کہ چیف سیکرٹری کو ادارہ امراض قلب میں کرپشن کی نشاندہی کرنے کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ سے زیادہ اس کی نشاندہی کرنے والے کے خاتمے پر یقین رکھا جاتا ہے۔ وہ پہلے کوئی دور تھا جب کہا جاتا تھا ’’درددل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘ اب تو بے چارہ انسان خود دردِ دل میں مبتلا رہنے لگا ہے۔ دل بے چارہ بھی تو آخر دل ہے کب تک وہ پے درپے صدمات برداشت کر سکتا ہے۔ امید ہے اب باقی درد دل رکھنے والے حضرات ، چاہے ان کا تعلق خواہ کسی بھی شعبہ سے ہو آرام سے رہنے کو ترجیح دیں گے ورنہ انہیں بھی کچھ کہنے یا بتانے پر یک بینی و دو گوش باہر کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ ڈاکٹر صاحب کیا سوچ رہے ہوں گے۔ کسی شاعر نے البتہ ایسی صورتحال پر خوب کہا تھا ۔
کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
زخم دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا
سچ بھی یہی ہے ۔ اب اس سے ہم رخ پھیر بھی لیں تو کیا ہو گا۔ طاقتور طبقہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آرزو کو دبانے کی بھرپور طاقت رکھتا ہے۔ یہ بات بہت سے لوگوں کو نجانے کیوں اب تک سمجھ نہیں آ رہی…
٭٭٭٭
برطانیہ کا بدقسمت ترین انسان جس پر ہر 6 سال بعد آسمانی بجلی گرتی رہی
یہ تو واقعی حیرت انگیز بات ہے کہ آسمانی بجلی پوری دنیا کو چھوڑ کر صرف اسی بے چارہ کی جان ناتواں پر کیوں گرتی رہی۔ ہمارے ہاں توہم پرست پہلوٹی کے بچے یعنی پہلے بچے کے بارے میں کہتے ہیں۔ اس کو گرج چمک کے دوران باہر نہیں پھرنا چاہئے کیونکہ اس پر بجلی گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ سر سید احمد خان نے انگریزی دور میںہندی مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ کر لکھا تھا کہ آسمان سے کوئی بلا اس وقت تک نازل نہیں ہوتی جب تک وہ زمین پر کسی مسلمان کا گھر تاک نہ لے۔ ہمارے شاعر بھی کسی سے پیچھے نہیں بجلی گرنے کے حوالے سے وہ بھی شعر کہتے رہتے ہیں مثلاً
’’گری ہیں بجلیاں جس پر وہ میرا آشیاں کیوں ہو‘‘ یا پھر ’’تیرے پاس ہیں یہی بجلیاں میرے پاس یہی آشیاں‘‘ وغیرہ وغیرہ لیکن اس برطانوی کا قصہ ہی عجب ہے۔ ہر 6 سال بعدآسمانی بجلی اس پر گرتی اور اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ پھر بھی بچ نکلتا۔ والٹر سمتھ نامی اس شخص کا انتقال 1932ء میں ہوا تو ایک مرتبہ پھر آسمانی بجلی اس کی قبر پر گری جس سے اس کی قبر کا کتبہ ٹوٹ گیا۔ اس شخص سے بھی برے حالات ہمارے ملک کے باسیوں کے ہیں جہاں آسمانی بجلی تو نہیں مہنگائی، کرپشن اور اقربا پروری کی بجلیاں آئے روز عوام پر گرتی رہتی ہیں مگر آفرین ہے پاکستانیوں پر کہ یہ صدمات صبر و تحمل سے برداشت کر لیتے ہیں۔ ان کا بھی جینا ہو کہ مرنا انہی بجلیوں کی زد میں رہتا ہے…