کالم لکھنے چلا ہوں تو فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ کالم کا عنوان ’’انسانیت کی ڈوبتی نیا‘‘ رکھوں یا ’’ منکروں کی زمین پر اذان‘‘۔ بطور طالبعلم لفظ منکر کی تعریف پر غور کریں تو لْغت کے اعتبار سے منکر کے معنی خْدا کی واحدانیت سے انکار کرنے والے جنہیں دوسرے الفاظ میں دہریہ یا ملحد کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے کو کہتے ہیں‘ لیکن سادہ الفاظ میں بڑے کینوس پر اس ک ی تشریح اس طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ جو شخص بھی قانون قدرت جس میں ریاست کا قانون بھی شامل ہوتا ہے کو جھٹلاتا ہے یا اس سے راہ فرار اختیار کرتا ہے‘ وہ منکر کے زمرے میں گردانا جاتا ہے۔ قارئین اب اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائیے کہ آج کے دور میں ہم میں سے کتنے ہیں جو اس تعریف کے زمرے میں آتے ہیں اور وہ کتنے ہیں جن کا دامن اب بھی اس تعریف کے چھینٹوں سے پاک ہے۔ پت جھڑ کے اس قحط الرجال میں پھر اگر ایسے میں کوئی ایک ایسا سامنے آ جائے جو اپنے اوپر تو قانون کی حکمرانی لاگو کرتا تو نظر آتے مگر اس کے ساتھ اس قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی خاطر وہ اپنی اولاد کی عزت حتیٰ کہ جان بھی داؤ پر لگا دے تو پھر اپ اس کے اس عمل کو کیا کہیں گے۔ میرے نزدیک تو یہ کسی صورت منکروں کی زمین پر اذان سے کم نہیں۔
میری بات چھوڑیں اپنے تئیں سوچیں اور اپنے ملک کے زمینی حقائق پر ایک نظر ڈالیں کہ جس ملک میں اس کا وزیراعظم یہ تسلیم کرنے میں کوئی عْذر محسوس نہ کرے کہ اس کو اپنے بہنوئی کے پلاٹ پر قبضہ چھڑوانے کیلئے پانچ آئی جیز تبدیل کرنے پڑے اور بالآخر ایک ایسے سی سی پی او کو لانا پڑے جو اپنا ذاتی اثرورسوخ اور دب دبا استعمال کر کے یہ قبضہ چھڑوائے تو پھر آپ خود اندازہ کر لیں کہ اس ملک میں مافیاز کتنے طاقتور ہیں اور قانون کتنا بے بس۔ یہ میرے یا آپ کے الفاظ نہیں درج ذیل پچھلے دس سالوں کی ایک مختصر تاریخ ہے اگر کوئی نتیجہ برآمد ہوا ہو تو تصحیح کر دیں۔ عزیر بلوچ رزلٹ صفر، عابد باکسر رزلٹ صفر، ڈاکٹر عاصم رزلٹ صفر، شرجیل میمن رزلٹ صفر، ریمنڈ ڈیوس رزلٹ صفر، مجید رکن بلوچستان اسمبلی پولیس اہلکار کا قتل رزلٹ صفر، انسپکٹر اعجاز قتل رزلٹ صفر، ماڈل ایان علی رزلٹ صفر، 12مئی قتل عام رزلٹ صفر،احد چیمہ رزلٹ صفر، فواد حسن فواد صرف ریمانڈ رزلٹ صفر، اسحاق ڈار رزلٹ صفر، رینٹل کیس رزلٹ صفر،نیو بینظیر ائیرپورٹ کرپشن کیس رزلٹ صفر ‘رئیسانی حرام کمائی گھر سے برآمد رزلٹ صفر،ایم کیو ایم غداری کیس ثبوت موجود رزلٹ صفر، ایم کیو ایم دہشتگردی را فنڈنگ ثبوت موجود رزلٹ صفر، اصغر خان کیس رزلٹ صفر، شہد کی بوتل رزلٹ صفر ‘بلدیہ ٹائون رزلٹ صفر، ماڈل ٹائون رزلٹ صفر، شاہ رخ جتوئی کیس رزلٹ صفر، راؤ انوار ناحق قتلِ عام ثبوت موجود رزلٹ صفر56 کمپنی سکینڈل رزلٹ صفر، صاف پانی کرپشن کیس رزلٹ صفر، سستی روٹی تندور کرپشن رزلٹ صفر، ٹڈاپ کرپشن کیس رزلٹ صفر، بابر غوری ایم کیو ایم کیس رزلٹ صفر، ارسلان افتخار کیس رزلٹ صفر، حسین حقانی کیس رزلٹ صفر، پرویز رشید غداری کیس رزلٹ صفر اور نجانے ان جیسے ہزاروں کیس امیروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور بزنس مینوں کے رزلٹ صفر۔
جب لسٹ اتنی طویل ہو اور نتیجہ صفر ہو تو پھرآپ پورے سسٹم کو اگر ڈوبتی نیا سے تعبیر کریں تو یہ بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں لگتی‘ لیکن پچھلے دنوں اسی گھپ اندھیرے میں اس سسٹم سے ایک ایسا چراغ روشنی بکھیرتا نظر آیا مجھ جیسے جو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب اس ملک کی ماؤں کی وہ گودیں بانجھ ہو چکی ہیں جن کے سپوت اپنے سینوں پر بہادری کے تمغے سجاتے ہیں کو روشنی کی اک کرن دکھا گیا۔ واقعہ کی تفصیل میں جانا نہیں چاہوں گا کیونکہ اس کی تفصیلات جتنا ہمارے معاشرے ہمارے سماج کو ننگا کر گئی ہیں‘ ان کو بیان کرتے نہ صرف شرم آتی ہے بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پورے جسم پر ایک انچ کپڑا بھی نہیں جس سے ہم اپنے ستر کو ڈھانپ سکیں‘ لیکن قربان جاؤں اس اے ایس آئی پر اسکی بہادر بیٹی پر جو نہ صرف انسانیت کیلیئے ایک باب رقم کر گئے بلکہ اْنہوں نے پورے معاشرے کو بتا دیا کہ سنت ابراہیمی کیسے ادا کی جاتی ہے۔ ہزاروں، لاکھوں مالیت کے جانوروں کی قربانی ہوتی ہر سال دیکھی جاتی ہے، حضرت ابراہیم کے بعد لخت جگر کو قربانی کی نذر کرتے پہلے انسان کو دیکھا۔ کتابوں میں پڑھا تھا کہ کس طرح حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل کے پاس جاتے ہیں اور اپنا خواب سناتے ہیں جواب میں کس طرح حضرت اسماعیل فرمانبرداری نبھاتے ہوئے اپنے آپ کو رضائے الہی کیلئے قربان کرنے کلیئے تیار ہو جاتے ہیں۔ قربانی کلیئے لیٹتے نہ بیٹا کی ہمت جواب دیتی ہے نہ باپ کے چھری چلاتے ہاتھ کانپتے ہیں۔ شیطان لاکھ وسوسے پیدا کرتا ہے‘ لیکن توحید پرستی غالب رہتی ہے۔
اس سنت ابراہیمی میں جانوروں کی قربانی دیکھتے عمر گزر گئی جس میں ایک کردار انسان کا ہوتا ہے اور دوسرا جانور کا۔ سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہزار ہا سالوں بعد دو انسانی کردار اے ایس آئی محمد بخش اور اس کی بیٹی پہلی دفعہ دیکھے۔ نہ باپ لڑکھڑا یا نہ بیٹی ڈولی۔ مقصد اپنی عزت کو داؤ پر لگا کر شیطانوں کے ہاتھوں تار تار ہوتی انسانیت کی ستر پوشی تھا جس میں دونوں سرخرو ہوئے۔ ان کی شان میں کوئی قصیدہ گوئی نہیں کرونگا کیونکہ کوئی قصیدہ ان کی عظمت کی بلندیوں کو چھو نہیں سکے گا۔ کچھ نہیں کہونگا بس صرف اتنا منکروں کی زمین پر اذان دینے والو تمہیں پوری انسانیت کا دونوں ہاتھوں سے سلام۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024