کبھی آبادی دنیا میں قوت و طاقت اور معاشی و سیاسی استحکام کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی لیکن آج بڑھتی ہوئی آبادی کو خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اور پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ہر سال آبادی میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے۔ یورپی ممالک نے اپنی آبادی کو قابو میں رکھا اور آج وہاں وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل ہم سے کہیں بہتر نظر آتا ہے۔بڑھتی آبادی مسائل کو بڑھائے گی اسی سوچ کے تحت1973 ء سے اقوام متحدہ نے کنٹرول آبادی کو ایک عالمی پالیسی بنا یا ہوا ہے۔ آبادی میں تیز رفتار اضافے کی شرع چونکہ ترقی پذیر ملکوں میں زیادہ رہی ہے اس لیے ترقی پذیر ممالک سے آبادی کنٹرول کرنے کی یقین دہانیاں لی جاتی ہیں اور قرض و ترقیاتی فنڈز کیلئے تخفیف آبادی کے اہداف کو بطور شرط منوایاجاتاہے۔ اس لیے آج ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بڑھتے ہوئے مسائل کی بڑی وجہ آبادی کی تیز رفتار بڑھتوری ہے ۔ہمارے پیارے رسولؐ کا فرمان عالیشان ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ چین اُس وقت بھی اپنا ایک مقام رکھتا تھا اور آج بھی چین کا دنیا میں ایک خاص مقام ہے ۔چین اور بنگلہ دیش وہ دو ملک ہیں جنہوں نے آبادی کم کرنے پر سب سے زیادہ عمل کر دکھایا ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ چین کی کمیونسٹ حکومت نے ستر کی دہائی میں آبادی کنٹرول کرنے کیلئے ون چائلڈ پالیسی نافذ کی ۔لوگو ںکو بھاری جرمانے کیے اور بہت کچھ کر کے اپنی آبادی میں نمایاں کمی لے آئے۔ بھارت میں بھی آبادی کو کنٹرول کرنے کا عمل کافی موثر انداز میں چل رہا ہے۔ بھارت اورچین توغیر مسلم ملک ہیں اس لیے شاید ہمارے لوگوں کو ان کی فلاسفی سمجھ آنا مشکل ہو ۔چلیں آج ہم اپنے بچھڑے بھائی سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جہاں آبادی کی شرع شروع میں ہم جیسی ہی تھی لیکن انہوں نے ایک طرف شرع خواندگی میں قابل قدر اضافہ کیا اور دوسری طرف شرع آبادی کو نمایاں طور پہ کم کر کے دنیا کو حیران کردیا ۔قیام پاکستا ن کے وقت ملک کی کل آبادی ساڑھے سات کروڑ کے قریب بتائی جاتی ہے ۔جس میں مغربی پاکستان کی آبادی پونے چار کروڑ اور مشرقی پاکستان کی آبادی سوا چار کروڑ تھی ۔اگلے 20 سال بعد جب یہ ملک دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تو مشرقی پاکستان کی آبادی 6 کروڑ 60 لاکھ اور مغربی پاکستان کی آبادی 5 کروڑ 70 لاکھ تک پہنچ چکی تھی یعنی دو عشروں میں آبادی کی شرع ڈبل ہو چکی تھی۔ سن 1971 میں ایک آزاد ریاست کے بہ طور قائم ہونیوالے بنگلہ دیش میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرامز پر عمدہ انداز سے عمل درآمد کیا گیا ہے۔ انہوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے طریقہ ہائے کار اور خدمات میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ ہر اہل جوڑا خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق مواد حاصل کرتا ہے، جو مقامی ہیلتھ ورکرز کی مدد سے ان تک پہنچایا جاتا ہے۔ ایک مشکل کام پاکستان کی طرح بنگلہ دیش کی 160 ملین آبادی میں سے 90 فیصد مسلمان ہیں، جن میں بڑی تعداد قدامت پسندوں کی ہے۔ اس وجہ سے سماجی حقوق کے کارکنوں کیلئے شادی شدہ خواتین، خصوصی طور پر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق شعور و آگہی دینے میں مشکلات کا سامنابھی رہا۔سب سے زیادہ مذہبی رہنماؤں کی جانب سے مزاحمت دیکھنے کو ملتی تھی۔ مگر پھر حکومت کی جانب سے مسلم مذہبی رہنماؤں کو خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق کورسز کروائے گئے۔ اس طرح اس مہم کا راستہ ہموار کیا گیا۔ بنگلہ دیش میں میڈیا لوگوں کو مسلسل سمجھاتا آیا ہے کہ مالیاتی بوجھ سے بچنے اور بچوں کی بہتر دیکھ بھال اور نگہداشت کیلئے خاندانی منصوبہ بندی بہت ضروری ہے اور یہ خبر بڑی حیران کن ہے کہ آج پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور بنگلہ دیش کی آبادی سوا سولہ کروڑ کے قریب ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پچاس برسوں میں بنگلہ دیش میں پیدائش کی شرح فی خاتون 7 بچوں سے کم ہو کر 2.1 بچے تک پہنچ گئی ہے۔ یہ قریب یورپی اوسط کے برابر ہے۔ شرح پیدائش میں کمی براہ راست خواتین کی بہتر تعلیم، ملازمت کے مواقع اور صحت کی سہولیات تک رسائی سے جڑی ہے۔دنیا میں جن ملکوں نے بھی ترقی کی ہے اس کی وجہ وہاں کے لوگوں نے 5 سال کی بجائے 50 سال اور 100 سال کو سامنے رکھتے ہوئے پالیساں بنانے کا عمل شروع کیا ہے ۔ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم ,صحت اور ٹرانسپورٹ کے جدید نظام کو دیکھیں اور پھر اپنی بد حالی کو دیکھیں تو حقیقت سمجھ آجاتی ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں سے بھول ہوئی ہے ۔ آج سے 50 سال پہلے جب اقوام عالم نے آبادی اور مسائل کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کام شروع کیا تو کاش اس ملک میں بھی خاندانی منصوبہ بندی پر ویسا ہی عمل ہوتا جیسا ہمارے پڑوسی ملکوں نے کردکھایا۔آج ہماری حکومت کو سب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ساتھ بٹھا کے آبادی کنٹرول کرنے کا کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے جو ہر حال جاری رہے ۔ عوام کو سمجھایا جائے کہ مہنگائی, بیروزگاری, صحت ,لاقانونیت اور سموگ جیسے مسائل آبادی کنٹرول کرنے سے ہی کم ہوں گے ۔کبھی ہم نے دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا عہد کیا تھا چلیں آج اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنے دوست چین,مسلم ملک بنگلا دیش اور دشمن دیش بھارت سے کچھ سیکھنے کا عہد کرلیں۔آبادی کنٹرول ہوگی تو ملکی معیشت پھلے پھولے گی اور لوگوں کی زندگی کا معیار بہتر ہونے لگے گا ۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024