آج کا ہر پاکستانی مورخ اس بات پر متفق ہے کہ مشرقی پاکستان سے علیحدگی کا بنیادی عمل مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں سے ہی شروع ہو کر اپنے منطقی نتیجے کو پہنچا کیونکہ مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں خطرناک حد تک اکثریت ہندو اساتذہ کی تھی اور طلباء کی اندھی قوت کو اپنے مطلوبہ رخوں پر موڑنے کی دور رس منصوبہ بندی ہندو جیسی دور اندیش اور فطرتاً سازشی قوم ہی کر سکتی تھی جو اس نے اپنی تمام تر تاریخ کے عین مطابق اور اپنی فطرت کے کلیتہً تحت اپنے مخصوص انداز میں ایک طویل المدت منصوبہ کے تحت قیام پاکستان کیساتھ ہی کر لی تھی۔
پنڈت جواہر لعل جیسا بے مثال بین الاقوامی شاطر ’بہروپیا‘ اور سیکولر زم اور لبرلزم جیسے شاطرانہ لبادوں میں سیاسی کھیل کھیلنے والا بین الاقوامی ’’اداکار‘ یہ منصوبہ بندی قیام پاکستان کیساتھ ہی کر چکا تھا قیام پاکستان کے قیام کیساتھ ہی دو دفعہ بگٹٹ بھاگا بھاگا پاکستان آیا، پہلی دفعہ اقلیتوں کے تحفظ کا معاہدہ (دستخط کیلئے) لیاقت علی خان سے کرنے کیلئے اور دوسری دفعہ سندھ طاس معاہدہ ایوب خان سے کرنے کیلئے ان دونوں معاہدوں میں پاکستان کی تباہی مضمر تھی، دوسرے منصوبہ کی تباہ کاریاں تو اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی ہیں اس کا تجزیہ علیحدہ مضمون میں کیا جائے گا۔ پہلا معاہدہ لیاقت علی خان سے اس وقت کیا جبکہ مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کا مکمل صفایا کیا جا چکا تھا اور اندرون ہند مسلمانوں کے قتل و غارت کے بعد بھاری مسلمان آبادی کو پاکستان دھکیلا جا چکا تھا لیکن اس وقت تک مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی جو کل آبادی کا 30 فیصد تھی امن امان سے بیٹھی ہوئی تھی جس طرح ایک مخصوص منصوبہ بندی سے انسانیت کا قاتل مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کا صفایا کرنے میں کامیاب ہوا تھا قائد اعظم جناح جن کا ضمیر اسلامی انسانی قدروں سے اٹھا تھا مشرقی پاکستان سے مشرقی پنجاب کے عمل میں لائے منصوبہ کے جواب میں ایسا منصوبہ دہرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ اس 30 فیصد ہندوئوں کی مشرقی پاکستان میں موجودگی سے پنڈت نہرو جو اپنی طویل المدت شاطرانہ کھیل کھیلنا چاہتا تھا اس پر بتدریج عمل ہوتا رہا اور اس منصوبے کی تکمیل نہرو کی پتری اندرا گاندھی نے سرانجام دی۔
اس پس منظر بیان کے بعد اب حالیہ خطرناک کھیل کی طرف آئیے اور اس وقت مولوی فضل الرحمن جو کھیل کھیل رہے ہیں اسے نظر میں مسلسل رکھئے ۔ فوج ایسا کر چکی ہے۔
منگل 5 نومبر 2019ء کو ڈان میں دو خبریں شہ سرخیوں کے ساتھ چھپی ہیں۔ پہلی اہم ترین خبر ڈان کے دوسرے صفحہ پر چیختی ہوئی سہ کالمی سرخی کے ساتھ سامنے آتی ہے۔
(اصل متن)
PA (Provincial ASSEMBLY) ask sindh government to lift zia-era ban on student union
عنوان خود کفیل ہے ، تبصرہ آگے دوسری خبر اسی طرح سہ کالمی حجم کیساتھ اسی اخبار کے دوسرے ذیلی حصے (METRO) کے دوسرے صفحہ پر سارے صفحہ پر چھائی ہوئی ہے۔
اصل متن کے ساتھ یوں ہے۔
''National Student body formed to
demand rivival of union
یہ خبر اور اس کی تفصیلات ڈان کے سٹاف رپورٹر کے حوالے سے لکھی گئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ چاروں صوبوں کے علاوہ گلگت ، بلتستان اور آزاد جموں / کشمیر ریاست کی مختلف تعلیمی تنظیموں کا اجلاس ہوا جو سب کی جھنڈے تلے اکٹھی ہوئیں۔
Education emergency at the south asian free media association auditorium
سٹاف رپورٹر نے ان سارے علاقوں کی تعلیمی تنظیموں کا ذکر کیا ہے لیکن کسی علاقے کی کسی تنظیم کا نام مہیا نہیں کیا اس بنیادی نکتے کے علاوہ یہ ذکر بھی مقصد ہے۔ کہ جن مفروضہ تنظیموں کا حوالہ دے کر اکٹھا ہونیکی بات کی گئی ہے انکا اجلاس کس مقام پر ہوا۔ البتہ 3 طلبا کے نام دیئے گئے ہیں جو سیکرٹریز بیان کئے گئے ہیں۔
قابل غور پہلو یہ ہے کہ راقم نے ملک کے دو قدیم اور موقر ترین اخبارات نوائے وقت اور جنگ کے اس تاریخ (اور اگلے دن کی تاریخوں میں) چھان پھٹک کی لیکن یہ دونوں خبریں کسی اخبار میں موجود نہیں تھیں۔ راقم کو زیادہ تردد دوسری خبر سے تھا جس کی راقم کو بنیادی معلومات نہیں ملی البتہ یہ سارا ڈھانچہ ہوائی قسم کا محسوس ہوا۔ راقم کا غیر معمولی تجسس بے جا نہیں تھا کہ عین اس وقت اس خانوادے کا ایک رکن (بقول ترجمان فوج کسی مذموم مقصد vested interest ملک کے امن و امان اور مسئلہ کشمیر کو پس منظر میں دھکیل رہا ہے) جس کی سابقہ ہسٹری پاکستان کے خلاف اور ہندو مقاصد سے ہم آہنگ رہی ہے اور جس کا سابقہ سرچشمہ (اب بھی جدا محسوس نہیں ہوتا جمعیت علماء ہند دیو بند) اس وقت بھی کشمیریوں کے خلاف مودی کے پہلو بہ پہلو ہندو مقاصد کے تصرف میں ہے۔ اس کے دھرنا کے ماحول میں جو مدرسوں کے سہارے پیدا شدہ ہے یہ سٹوڈنٹ یونین کا فتنہ یکایک اُبھارنے کا ڈول کیوں ڈالا جا رہا ہے، سندھ اسمبلی کو کیا تحریک حاصل ہوئی ہے کہ وہ مولوی فضل الرحمن کے ماڈل سے اپنا کارڈ کھیلنے کی کوئی منصوبہ بندی کرے اور سب سے سنگین پہلو تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاہور کے حوالے سے ایک بے سروپا کہانی ڈان کے سٹاف رپورٹر کے ہاتھ میں کس نے تھمائی ہے جو کسی اور اخبار تک نہیں پہنچی۔
یہ یاد رہے کہ سٹوڈنٹ یونین کے راستے پنڈت نہرو نے جس کھیل کا آغاز کیا تھا اور قائد اعظم میں ڈھاکہ میں اس وضاحت پر کہ پاکستان کی قومی زبان اردو جو تحریکِ پاکستان کا حصہ تھی وہی سرکاری زبان ہو گی تو اس فتنے کا آغاز سب سے پہلے بنگالی زبان کی آڑ میں اسی سطح سے اٹھایا گیا تھا اور سب سے پہلی قومی پالیسی کو خاص طور پر اسی بنا پر ٹارگٹ کیا تھا اور سب سے پہلے وزیر تعلیم کو ڈھاکہ کے ائیر پورٹ پر ڈرایا دھمکایا گیا تھا…اس وقت اگر حکومت نہرو کی طرح دور اندیش ہوتی تو اس جنم لیتے فتنہ کا سر اسی وقت کچل دیتی۔ تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ہندو اساتذہ کا صفایا کرتی جو طلباء لیڈر نہرو نے آگے بڑھائے تھے پوری تحقیق سے اس کا قلع قمع کرتی لیکن حکومت کی بے بصیرتی سے وہ فتنہ جڑ پکڑتا گیا اور حمود الرحمن کمیشن اس وقت بنایا گیا جب نہرو کی پتری اپنے باپ کے منصوبہ کو تکمیل تک پہنچا چکی تھی، یہ کمیشن سانپ گزرنے پر لکیر پیٹنے کے مترادف تھا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی وزارت تعلیم اور ملک کی خفیہ ایجنسیوں کو ان دوسری خبر کی تہ میں ٹھوس اور فوری تحقیق سے اترنا چاہئے حُسن اتفاق سے جن تین سیکٹریز کے نام دئیے گئے ہیں ان سے فی الفور تحقیق کا آغاز کر کے ان سے پوچھا جائے کہ جن تنظیموں کا حوالہ دیا گیا ہے انکا حقیقی وجود کیا ہے اور اگر یہ ثابت ہو جائے تو اس پر جھوٹی خبر کے سہارے فتنہ پروری کی قانونی گرفت کرنا چاہئے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38