متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی ابتری مسلمانوں کے مخدوش مستقبل کا اشاریہ تھی۔ تعلیمی پسماندگی کے باعث مسلمانوں کی سماجی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔1906ء میں مسلم لیگ کے قیام نے مسلمانوں کو اپنے حقوق کی بازیابی اور دوہری غلامی سے نجات کا ولولہ اور امنگ بخشی۔
قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی صورت میں مسلمانان برصغیر کو نجات دہندگان میسر آئے تو یہ شخصیات مختصر سے عرصہ میں دلوںپر حکمرانی کرنے لگیں۔ سیاسی میدان کی مشکلات کیساتھ ساتھ تحریک کو مالی معاملات میں بھی خاصی دشواری کا سامنا تھا۔ بہت سی ملت نواز شخصیات اس مرحلہ پر بھی قائد اور مسلم لیگ کی پششتبان تھیں۔ ایسی شخصیات میں ایک نوجوان سے قائداعظم کو خاص انس اور رغبت ہو گئی تھی اور کیوں نہ ہوتی کہ یہ نوجوان خداداد انتظامی صلاحیتوں کے بل پر انتہائی چھوٹی عمر میں ہی اپنا جداگانہ تشخص اور پہچان بنا چکا تھا۔ اس کی کامیابی کے چرچوں کی گونج قرب و جوار کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ یہ نوجوان جو محض 16 برس کی عمر میں حادثاتی طورپر عملی زندگی میں وارد ہوا تھا‘ اپنے والد کے آلات جراحی سازی کے پیشہ کو اختیار کریک اسے وسعت اور جدت آشنا کر چکا تھا۔ خوش شکل‘ خوش لباس اور خوش اطوار ہونے کے باعث رئوسا اوربااثر شخصیات میں شمار ہونے والا یہ نوجوان اپنے کاروباری منصوبوں کو حیرت انگیز تیز رفتاری سے پروان چڑھا کر مسلمانوں کے معاشی بدحالی کے عام تاثر کی نفی کر رہا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح سے قلمی روابط میں اس نوجوان نے اپنی ذہنی بالیدگی کے باعث ایسی آراء اور مشاہدات سے آگاہ کیا کہ قائد بھی اس نوجوان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کا آپس میں قلمی رابطہ باہمی عقیدت و محبت کا غماز بن گیا۔مجلسی طبیعت کا حامل یہ نوجوان سماجی تقریبات منعقد کروانے اور ہم مشرب لوگوں کو اکٹھا کرنے کیلئے مشہور ہو گیا۔ اس کی مجلسوں میں اہم بیورو کریٹ‘ سیاستدان‘ صنعتکار‘ تاجر اور دانشور آکر آسودگی محسوس کرنے لگے۔ یہ خوش اخلاق و خوش شکل نوجوان محفلوں کی جان بن گیا۔ اپنی نجی دعوتوں میں بااثر اور متمول طبقہ کو مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کیلئے مالی اور اخلاقی حمایت کرنے کی ترغیب دے کر یہ نوجوان خاموش سفارتکاری کر رہا تھا۔ آلات جراحی سازی کی صنعت سے وابستہ یہ نوجوان غلام نبی اینڈ سنز کا روح رواں ایم رفیع بٹ تھا۔ عام نوجوانوں سے قطعی مختلف رفیع بٹ یتیمی کی چادر اوڑھ کر بیٹھ رہنے کی بجائے تحریک کی علامت بنا اور اپنے والد کی قائم کردہ چھوٹی سی دکان’’غلام نبی اینڈ سنز‘‘ کو آلات حراحی سازی کی برصغیر کی سب سے نمایاں بڑی صنعت بنانے میں کامیاب ہوا۔ مسلمانوں کی معاشی ابتری کا ادراک رکھنے والے اس نوجوان نے مسلمانوں کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے مالی معاونت میں خاصی فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ ایم رفیع بٹ نے نئی کاروباری جہات سے آگاہی کیلئے کئی ممالک کے مشاہداتی سفر کئے اس مرحلہ پر بھی ملک و ملت کیلئے حساس دل رکھنے والے رفیع بٹ نے سفری بیموں کا دعویٰ دار قائد اعظم محمد علی جناح کو قرار دیا تاکہ کسی بھی ناگہانی صورت میں بیمہ کی رقم تحریک پاکستان کے کام آ سکے۔ یہی وہ جذبہ تھا جس کی وجہ سے قائداعظم اس نوجوان کی دل سے قدرت کرتے تھے اور اس کی آراء کو اہمیت دیتے تھے۔ والد کی وفات کے بعد ایک چھوٹی سی دکان کو ایک بڑی صنعت میں تبدیل کرنے کے کچھ عرصہ بعد ہی اس نوجوان نے برصغیر میں پہلے مسلمان کے طور پر سینٹرل ایکسچینج بنک آف انڈیا قائم کرکے اپنی خداداد صلاحیتوں کا ڈنکا بجا دیا اس سے پیشتر اس شعبہ میں انگریزوں یا چند ایک ہندوئوں کی اجارہ داری قائم ہو چکی تھی۔ مسلم لیگ کے دیگر زعماء کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کا یہ خاموش سپاہی معاشی محاذ پر تحریک کو پروان چڑھانے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہا تھا۔ اس کی بالغ نظری سے متاثر ہو کر قائداعظم نے رفیع بٹ کو مسلم لیگ کی معاشی بندوبست کی کمیٹی میں اہم کردار تفویض کیا۔
اس دور میں اخباری صحافت کی طاقت و اہمیت سے آگاہ ایم رفیع بٹ نے نا صرف قائداعظم کو انگریزوں اور ہندوئوں کی افواہ ساز فیکٹریوں کے جواب میں مسلمانوں کا انگریزی اخبار جاری کرنے کی ترغیب دی بلکہ اس سلسلہ میں بھاری مالی تعاون بھی پیش کیا جس کی بدولت مسلمانوں کا انگریزی اخبار اشاعت پذیر ہوا اس کے علاوہ انہوں نے بیرون ممالک اپنے کاروباری دفاتر کو بھی مسلم لیگ کی ترویجی سرگرمیوں کے لئے پیش کردیا۔ انتہائی مختصر عرصہ میں کامیابیوں کی داستانیں رقم کرنے والے رفیع بٹ نے ذاتی ترجیحات کو قوم کی تعمیر و ترقی پر کبھی فوقیت نہ دی۔ پیسے اور شہرت کی ہوس سے بے نیاز رفیع بٹ کو جب قیام پاکستان کے بعد ان کی خدمات کے بدلے قائداعظم محمد علی جناح نے امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر کے طور پر نامزد کیا۔ مستقبل کے معاشی و سماجی فوائد کو نظرانداز کرتے ہوئے رفیع بٹ نے اپنی مٹی سے وفا کرنے کو ترجیح دی اور قائد سے معذرت کرکے ایم اے ایچ اصفہانی کو سفیر بنانے کی تجویز پیش کی جسے قائداعظم نے قبول فرما لیا۔ قائداعظم خود بھی اس کامیاب صنعت کار کے تجربات کو نوزائیدہ مملکت کی ترقی کیلئے استعمال کرنا چاہتے تھے بد قسمتی سے ملک و ملت کیلئے بہت کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے قائد کے اس عظیم کارکن اور قوم کے سپوت نے کراچی سے لاہور واپسی پر وہاڑی کے قریب پاک ائرویز کے طیارے کے حادثہ میں 26 نومبر 1948ء کو 38 سال کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور تاریخ پاکستان میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان نقوش کو گہرا کرنے اور نئی نسل کو قیام پاکستان کی روداد سے جوڑے رکھنے میں رفیع بٹ کے صاحبزادے ایک اور کامیاب بزنس مین امتیاز رفیع بٹ‘ جو ان کی وفات کے وقت محض دو ماہ کے تھے‘ نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ امتیاز رفیع بٹ اگر تاریخ کی گرد سے اس بیش بہا خزینے کو نکال کر قوم کے سپرد نہ کرتا تو شاید ہم تحریک پاکستان کے اس اہم ترین کردار سے ناواقف ہی رہتے۔ آج امتیاز رفیع بٹ ’’جناح رفیع فاؤنڈیشن‘‘ کے تحت مفت معیاری تعلیمی ادارے قائم کر رہا ہے‘ آئندگان کی فکری تربیت کے لئے فکری مباحث اور تحقیقاتی کام کر رہا ہے۔ تاریخ کے گمشدہ اوراق کو اکٹھا کر رہا ہے‘ سماجی خدمات کے ذریعے معاشی و معاشرتی ترقی کے لئے تگ و دو کر رہا ہے اور ملک و ملت کی اسی طرح خدمت کر رہا ہے جس طرح رفیع بٹ ہمہ تن مصروف تھا۔ امتیاز رفیع بٹ پاکستان کے تابناک مستقبل کی تصاویر پیش کرتا اور اپنے عزائم کو حقیقت بناتا اپنے والد کے نقش قدم پر رواں دواں ہے۔ اللہ پاک اس کے حوصلے اور عزم کو آباد رکھے کہ ایسے لوگ ہی پاکستان کا روشن چہرہ ہیں۔