سفید پوش طبقہ کیلئے گرم کپڑوں کی خریداری مزید دشوار ہو گئی
سفید پوش طبقہ کیلئے گرم کپڑوں کی خریداری مزید دشوار ہو گئی
عنبرین فاطمہ
پاکستان میں سردی زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک رہتی ہے لیکن اس تین ماہ کے لئے گرم کپڑوں کا استعمال نا گزیر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی استعداد کے مطابق گرم کپڑے کی مارکیٹوں کا رخ کرتے ہیں لیکن اس برس لاہور اور دیگر شہروں کی معروف مارکیٹوں میں گرم کپڑے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جس کے باعث خریدار مشکلات کا شکارہے۔بچوں کے کپڑوں پر نظر ڈالی جائے توان کی قیمتیں سن کر والدین تڑپ اٹھے ہیں معمولی سے معمولی سوٹ کی قیمت بھی پندرہ سو روپے سے کم نہیں ہے اس کے علاوہ ریڑھیوں پرجو جرابیں،ٹوپیاں ،دستانے اور اس طرح کی دیگر چیزیں بآسانی کم قیمت میں مل جاتی تھیں اب تو ایسی ریڑھیاں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں ۔صارف مارکیٹوں کا رخ کر رہے ہیں لیکن قیمتیں سن کر ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے مایوس گھر کو لوٹ جاتے ہیں جہاں تک لنڈے بازار سے گرم کپڑے کی خریداری کا تعلق ہے تو یہ بازار کبھی سفید پوش طبقے کی خریداری کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا لیکن آج وہاں بھی معمولی کپڑے کی قیمت عام آدمی کی قوت خرید کا امتحان لے رہی ہے جبکہ دوکانداروں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ہمیں مال مہنگے داموںملتا ہے کپڑے کے جس بنڈل کی قیمت پہلے چار ہزار تھی آج وہ آٹھ سے دس ہزار میںپڑتا ہے یوںمال خریدتے وقت دکاندار مشکل میں پڑجاتا ہے ۔گرم کپڑوں کی زیادہ کھپت شمالی اور سرحدی علاقوں میں پائی جاتی ہے ایک اندازے کے مطابق ان علاقوں میں گرم کپڑوں کی قیمتیں پنجاب سے بھی زیادہ ہیں لیکن شدید سردی کے ستائے عوام مہنگے داموں بھی گرم کپڑوں کی خریداری پر مجبور ہیں علاوہ ازیں ان کو مختلف امراض کا شکار ہونا پڑتا ہے۔اچھرہ مارکیٹ جہاںخواتین کی ایک بڑی تعداد موسمی ملبوسات کی خریداری کرنے کے لئے آتی ہیں ہم وہاں گئے اورگرم ملبوسات کی خریداری کرنے کے لئے آئی ہوئی خواتین سے بات کی۔گھریلو خاتون ”دیبا خان“ نے کہا کہ گزرتے ہر سال کے ساتھ گرم کپڑوں کی خریداری ایک خواب سی بنتی جا رہی ہے۔ ہر برس قیمتوں میں اضافہ ذہنی کوفت میں مبتلا کر رہا ہے موسم کی شدت سے نبرد آزما ہونے کےلئے موسمی ملبوسات ایک بہت بڑی ضرورت ہیں جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا غریب آدمی جیسے تیسے کرکے بھی کتنی خریداری کر سکتا ہے جس گھر میں پانچ بچے ہیں اور آمدنی انتہائی قلیل ہے وہ اپنے بچوں کی ضروریات کیسے پوری کرے۔میرے چار بچے ہیں اور میرا شوہر ایک سٹور میں کام کرتا ہے ماہانہ آمدنی اتنی نہیں ہے کہ میں ایک دفعہ میں اپنے سب بچوں کے کپڑوں کی خریداری کر سکوں آج یہاں آکر جب بچوں کے گرم ملبوسات کی قیمتیں معلوم کیں تو سر جیسے چکرا سا گیا۔موسمی ضروریات کے مطابق چلنا بچوں کی ڈیمانڈز سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے لیکن آج بازار میں آکر قیمتیں سن کر مایوسی ہوئی ہے۔نازیہ ارشد (ورکنگ لیڈی) نے کہا کہ گرم شالوں کی قیمتیں سن کر بہت حیرانی ہوئی ہے اچھی والی گرم شال کی قیمت میں دو گنا اضافہ ہوچکا ہے۔تنخواہوں میں اضافہ تو ہوتا نہیں ہے لیکن چیزوں کی قیمتیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ہر آنے والی حکومت سے امید ہوتی ہے کہ شاید ملازمت پیشہ/غریب آدمی کی سنی جائے گی شاید وہ سکھ کا سانس لے سکے گا لیکن ہر مرتبہ امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔سمیرا ارشد(گھریلو خاتون) نے کہا کہ گرم کپڑے کی قیمتیں سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ا س برس ان کی خریداری مخصوص طبقے کی پہنچ میں ہی ہو گی، ہم صبح سے خریداری کرنے آئے ہیں لیکن پوری مارکیٹ پھرنے کے بعد بھی کسی سوٹ کی خریداری نہ کر سکے لگتا ہے ہمیں یوں ہی خالی ہاتھ گھرلوٹنا پڑے گا۔مسز ناہید وارث(ورکنگ لیڈی) نے کہا کہ اچھی کاٹن کے سوٹ پہلے مناسب قیمت میں دستیاب تھے لیکن اب ان کی قیمتوںمیں بھی ہوشربا اضافے نے بیچارے غریب کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔مسزسمیرا ناہید (گھریلو خاتون)نے کہا کہ اپنے لئے کپڑوں کی خریداری نہ بھی کی جائے توکوئی بات نہیں لیکن بچے جن کو موسمی کپڑوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے ان کی خریداری تو ہر حال میں ضروری ہے ان کی قیمتوں میں دوگنا اضافے نے والدین کو مایوس کر رکھا ہے حتی کہ بچوں کی معمولی جرابیں جو چالیس پچاس روپے میں با آسانی دستیاب ہوتیں تھیں اب وہ بھی سو روپے سے کم نہیں مل رہیں قیمتوں کے اتار چڑھاﺅ کے باعث اکثر دکاندار اور گاہک آپس میں الجھتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔عنبرین مرزا نے کہا کہ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی گرم ملبوسات مارکیٹوں کی رونق بن گئے ہیں ان کی خریداری کےلئے بازاروں میں لوگوں کا ایک بڑا ہجوم دکھائی ضروردے رہا ہے لیکن ان ملبوسات کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے ہم خواتین کو مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔معمولی گرم سویٹر اور گرم کپڑوں کی قیمتیں ہزاروں روپے میں ہیں جو کہ کم آمدنی والے افراد کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ایک وقت میں جو لوگ بازاروں سے زیادہ قیمت میں گرم ملبوسات کی خریداری نہیں کر سکتے تھے وہ اپنا تن ڈھانپنے اور موسم کی شدت سے بچنے کےلئے لنڈے بازار کا رخ کر لیتے تھے لیکن اب لنڈے بازار سے گرم ملبوسات کی خریداری کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی۔اب غریب آدمی جائے تو کہاں جائے؟۔جہاں تک مہنگائی کی بات ہے تو کمر توڑ مہنگائی ہر طبقے پر اثر انداز ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ اب امیر آدمی بھی لنڈے بازار کا رخ کررہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب لنڈے کے کپڑے زیب تن کرنا امیر آدمی اپنی توہین تصور کرتا تھا لیکن اب بڑی بڑی گاڑیوںسے خواتین اترتی ہیں اور مختلف دکانوں اور ریڑھیوں پرموسمی کپڑے تلاش کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں لنڈے کی مصنوعات کی قیمتوں میں بھی پچیس فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔تاجروں سے شکایت کریں تو وہ کہتے ہیںکہ ہمیں امپورٹ کئے ہوئے مال پر بے تحاشا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے لنڈے کی مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔جہاں تک اس وقت بازاروں میں دستیاب بچوں کے گرم ملبوسات کی بات ہے تو ان کی خریداری بھی متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔ثمینہ بیگ نے کہا کہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ غریب آدمی کی پہنچ میں موسمی ملبوسات تک نہیں رہے۔دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے تو جیسے نظام زندگی ہی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے مہینے کے راشن سے ہی اندازہ لگا لیں ہر مہینے دالوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو پڑھائی سے اٹھا کر چھوٹے موٹے کام پر لگا دیتے ہیں تاکہ کسی طور گھر کے اخراجات پورے ہو سکیں۔