شرح سود میں اضافہ ۔۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی
عبدالقدوس فائق ۔۔۔
اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے ملک میں شرح سود میں 0.50فیصد اضافہ کرکے اس کی نئی شرح 10فیصد مقررکردی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان یاسین انور نے شرح سود میں اضافہ کے جن اسباب پرروشنی ڈالی ہے ان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی‘ مہنگائی اورافراط زر کی شرح میں اضافہ‘برآمدات کے مقابلہ میں درآمدات کی شرح میں اضافہ کوقرار دیا ہے۔اس سلسلہ میں ا سٹیٹ بنک آف پاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ گرانی کی شرح بلند ترین سطح یعنی 10.5فیصد سے 11.50فیصد کے درمیان تک پہنچنے کا امکان ہے اورغذائی اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔دو سال قبل سابقہ حکومت نے تجارتی حلقوں کے دبائو پر شرح سود بتدریج کم کرکے 7.25فیصد تک کردی تھی۔ جس کے نتیجہ میں بتدریج بچتوں اورڈپازٹس پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ خود حکومت کو پہنچا کیونکہ بجٹ کے خسارے کو پورے کرنے کیلئے بنکوں سے سب سے زیادہ قرضہ خود حکومت حاصل کررہی تھی۔ گزشتہ مالی سال میں حکومت نے 2700ارب روپے کے بنکوں سے قرضے لئے جو شرح سود کم ہونے سے پہلے کے مقابلہ میں سستے پڑے۔ اس سرکاری قرضہ گیری سے افراط زر کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ ماہرین کے مطابق شرح سود کے تعین کیلئے یہ ضروری ہے کہ افراط زر کی شرح کو مدنظر رکھ کر5فیصد زائد شرح سود مقرر کی جائے۔ مثال کے طورپر اسٹیٹ بنک نے افراط زر اورمہنگائی کی شرح اس وقت 9.50سے 10فیصد بتائی ہے اور اس میں اضافہ کی توقع کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدشہ ہے کہ یہ بڑھ کر 10.50 اور 11.50 فیصد ہو جائے گی۔ اس وقت ڈیپا زٹرز کواوسطًا 6 فیصد سے 9فیصد تک منافع دیاجارہا ہے جو اس وقت کی مہنگائی اور افراط زر کی شرح کے لحاظ سے 0.50 فیصد اور ایک فیصد کم ہے۔ اس طرح ڈپازٹرز کو منافع کے بجائے 0.50 فیصد سے ایک فیصد کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس لئے اسٹیٹ بنک کی جانب سے شرح سود میں0.50فیصد اضافہ درست قدم ہے۔ لیکن شرح سود اب بھی کم ہے۔ شرح سود میں کمی کیلئے ہمیں افراط زر میں کمی کرنا ہوگی۔سرکاری قرضہ گیری‘ تجارتی خسارہ‘بجلی‘ گیس ‘پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی‘پیداواری لاگت میں کمی اورروپے کی قدر میں استحکام کے ذریعہ ہی افراط زرپرقابو پایاجاسکتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ نجی بنکوں کو بھی اس بات کا پابند کیاجانا ضروری ہے کہ وہ ڈپازٹرز کوبہتر منافع دیں جیسا کہ اسٹیٹ بنک نے واضح کیا ہے کہ جب ڈپازٹس میں ہی اضافہ نہیں ہوگا تو سرمایہ کاری میں کیسے اضافہ ہوگا۔ کیونکہ بنکوں کے تمام قرضے انہیں ڈپازٹرز کی بچتوں سے جاری کئے جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈپازٹرز کو مشکل سے 6سے 9فیصد اورسیونگز پر تو صرف 5 سے 6 فیصد ادا کیاجاتا ہے بنک 14 فیصد سے 16فیصد وصول کرتے ہیں۔ جبکہ قواعد وضوابط کے تحت ڈپازٹرز اور بنکوں کے جاری کردہ قرضوں کی شرح سود میں 2.50 فیصد سے 3 فیصد کا فرق ہونا چاہئے مگر پاکستان میں یہ فرق 6 سے 8 فیصد تک ہے اسے دور کرنے کیلئے ڈپازٹرز کی شرح میں اضافہ ناگزیر ہے اس سے بچتوں کی ترغیب سے ڈپازٹس میں خاطر خواہ اضافہ سے بنکوں کے پاس فاضل سرمایہ کاری کیلئے بھاری رقم کا حصول ممکن ہوگا ۔جبکہ سرمایہ کاری سے ملک میں زراعت وصنعت وتجارت اورخدمات کی شعبہ میں نئی سرمایہ کا ری اوروسعت سے جہاں روزگار میں اضافہ ہوگا وہیں حکومت کے محاصل میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ جنرل پرویز مشرف کے دورمیں جب شوکت عزیز پہلے وزیرخزانہ بنائے گئے تو بہت جلد ان کے پاکستانی سرمایہ کاروں سے تعلقات قائم ہو گئے۔ پھر جب وہ وزیراعظم بن گئے تو انہوں نے انہیں حلقوں کی آشیرباد پرملک میں شرح سود میں تیزی سے کمی کی اورایک وقت آیا کہ ا یکسپورٹ ری فنانسنگ پرشرح سود گھٹا کر محض 3 فیصد کر دی گئی اور ان کے بہت سے دوستوں نے بنکوں سے بھاری قرضے لے کر دبئی اورامارات میں ریئل اسٹیٹ کے شعبہ میں بھاری سرمایہ کاری کے ذریعہ اربوں روپے کمائے‘ دوسری طرف ڈپازٹرز بالخصوص ریٹائرڈ بزرگ شہری‘ بیوائوں کو جب 4 اور 5 فیصد منافع ملنا شروع ہوا تو ان کے مالی حالات تیزی سے بگڑے۔ اس صورتحال کیلئے بھی شوکت عزیز صاحب کے پاس انہیں سرمایہ کاروں کی عطا کردہ حکمت عملی موجود تھی انہوں نے ان تمام پریشان حال بزرگ شہریوں‘ بیوائوں کو اسٹاک مارکیٹ کا راستہ دکھا دیا۔ اسٹاک مارکیٹ شدید تیزی میں آیا پھر شدید مندی ہو گئی لوگوں کے اربوںروپے ڈوبے لاکھوں بزرگ شہری اور بیوائیں اوران کے خاندان فاقوں سے دوچار ہو گئے۔ کم شرح سود پرقرضے لینے والوں میں ان دوست اورمبینہ تجارتی پارٹنرز کے علاوہ سینکڑوں تاجر بھی تھے۔ بنک نقدی کے بحران سے دوچار ہو گئے تو انہیں خیال آیا انہوں نے متعدد بار اپنے بیانات میں یہ کم شرح پر قرضے واپس کرنے کی ہدایت کی بنکوں نے قانونی کارروائیاں شروع کیں۔ اسی دوران عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوگیا۔ پاکستانی سرمایہ کاروں نے ایک محتاط اندازے کے مطابق 12سے 15 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری صرف دبئی میں رئیل اسٹیٹ میں کی تھی راتوں رات یہ دیوالیہ ہوگئے۔ متعدد کی پاکستان میں املاک نیلام ہوئیں اوربہت سے اب تک قرضے ادا نہیں کرسکے۔ اس کے بعد اسٹیٹ بنک کی ایک گورنر ایک خاتون کو مقرر کیا گیا جوایشیائی ترقیاتی بنک میں ملازم تھیں۔ دیگرسابق گورنر کی طرح نہ وہ سینٹرل بنک اوراس کے کردار سے واقف تھیں نہ انہیں مانیٹری پالیسی کا کوئی علم یا اس سے واقفیت تھی‘انہیں جلد اس کا احساس ہوگیا اورانہوں نے اپنی رہنمائی اور مانیٹری پالیسی سمجھنے کیلئے ایک شخص کو بھاری تنخواہ پر اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں ملازم رکھ لیا۔ اس کے بعد شرح سود میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہا۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے شرح سود میں 0.50 فیصد اضافہ کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ کم شرح سود سے قرضوں کی ترغیب میں اضافہ ہوتا ہے اورموجودہ حالات میں اگر شرح سود بدستور9.50فیصد برقرار رکھی گئی تو قرضہ گیری میں اضافہ اوربچتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔اسی طرح اسٹیٹ بنک نے شرح سود میں اضافہ کے بیان میں یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ مالیاتی صورتحال بھی قیمتوں پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے اور اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت اوران کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹیکسوں کی شرح‘پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ اورزرتلافی میں کمی ذریعہ بجٹ کے خسارہ کو کم کرنے کے جو اقدامات کئے ہیں۔ اسی کے نتیجہ میں اسٹیٹ بنک نے سرکاری قرضہ گیری میں کمی کی وجہ سے شرح سود میں اضافہ کیا ہے لیکن اسٹیٹ بنک نے حیرت انگیز طورپر ڈیپازٹرز کی شرح میں کسی اضافہ کا اعلان نہیں کیا۔ بنکوں کے پاس اس وقت مجموعی ڈیپازٹس تقریباً 71 کھرب روپے کے ہیں جبکہ بنکوں کے جاری کردہ قرضے 38 ارب روپے کے لگ بھگ ہیں ۔ بنکوں کا بعد از ٹیکس خالص منافع ایک کھرب 90 ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے اور بنکوں کا ادا شدہ سرمایہ اورریزرو بھی تقریباً 6کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔