مذاہب اور بنیاد پرستی............؟
زمانہ موجود میں جمیع مسلمانوں پر ایک الزام زبردستی تھوپا جا رہاہے۔ یعنی بنیاد پرستی اور بنیاد پرستی کی کوکھ سے دہشت گردی کو برآمد کیا جا رہا ہے۔ یوں تو قتل وغارت‘ بم دھماکے اور خود کش حملے اکیسویں صدی کا پہلا تحفہ ہیں۔ مگر ان کا الزام اور ذلت صرف مسلمانوں کے حصے میں کیوں آئی ہے....؟ کیا اس لئے کہ جو لوگ ان حملوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ انہوں نے بنیاد پرست مسلمانوں والی صورت اور حلیہ بنایا ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ لوگ کرائے پر بنائے جاتے ہیں۔ اور جس ملک میں پارسل کئے جائیں اس ملک کا حلیہ بنواکربھیجے جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ کونسا ملک ہے جس میں یہ دھماکے نہیں ہو رہے۔
بنیاد پرستی ہے کیا.... مذہب کے اندر ایک خود ساختہ بے لچک رویے کو بنیاد پرستی کہتے ہیں....
اور سیکولرزم کیا ہے، اسی مذہبی رویے میں نرمی اور لچک پیدا کرنا۔
اگر مذاہب کا مطالبہ کیا جائے تو آپ دیکھیں گے انسان دوستی اور حقوق العباد کے ضمن میں تمام مذاہب کا رویہ اور اصول مثبت ہیں۔ چوری، ڈکیتی قتل و غارت ہوس دولت، کرپشن، بدکرداری، زنا کاری، ظلم و بربریت، جھوٹ، الزام تراشی قسم کے سب کاموں کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا کے بڑھتے ہوئے آپسی روابط میں قومیں ایک دوسرے کی عادتیں اختیار کر لیتی ہیں۔ زمینی حقائق فراموش کر دیتی ہیں یا مذہب کے ٹھیکیداروں کے اشاروں پر چلنے لگتی ہیں۔ ایسے مذہب کے ٹھیکیدار ہر مذہب اور ہر ملت میں ہوتے ہیں۔ کوئی فرد اپنے آپ کو مذہب سے کتنا ہی بیگانہ کیوں نہ کہے۔ اسے مذہب کے نام پر کئی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے جھوٹی قسم کے کھانے کے لئے بھی خدا کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہی وجوہات کے پیش نظر معاشروں کے اندر مذہب کے استحصال کا رواج عام ہوا....
مسلمانوں کا سارا مذہب قرآن پاک کے اندر مرقوم ہے، جس کی وضاحت احادیث اور اسوہ¿ حسنہ سے ہوئی ہے۔ پھر اس کے اندر اجتہاد کی شق موجود ہے جسے بہت سے قدیم اور جدید فقہا نے مانا ہے۔ اگر یہ الزام ہے کہ مسلمان بنیاد پرست ہیں دوسرے لفظوں میں دہشت گرد ہیں تو اس الزام کو دھونے کا فریضہ کن لوگوں کا ہے۔ ان لوگوں کا جو مذہب کی بات بلند آواز میں کرتے ہیں کسی معاشرے میں سارے کام سیاست دانوں کے کرنے کے نہیں ہوتے۔ سیاست دانوں کا کام عوام کو روٹی امن اور انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ اصلاح معاشرہ مذہبی پیشواﺅں اور استادوں کا کام ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ بہت عقیدت کے ساتھ ان کی باتیں سنتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔
شرط یہ ہے کہ آج کے زمانے میں وہ سچ کا سہارا لیں۔
جیسا کہ 19مارچ 2013ءکو نئے 76سالہ پوپ فرانسس نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنی پہلی تقریر میں بہت سے اہم اور نازک معاملوں پر بہت صاف گوئی کے ساتھ اظہار خیال کیا۔ ٹویٹر پر ان کے پیغامات 9زبانوں میں منتقل کئے جاتے ہیں اور جن کو پڑھنے والے تقریباً 71لاکھ لوگ ہیں۔ آج کی دنیا میں پیغامات بجلی کی سی سرعت کے ساتھ ادھر سے ادھر جاتے ہیں اور پھیل جاتے ہیں۔
پہلی بات جو انہوں نے اپنے عقیدت مندوں سے کہی ہے وہ یہ ہے کہ بنیاد پرستی چھوڑو اور اعتدال پسندی لاﺅ۔ ایک اطالوی میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا....
”چرچ نے اپنے آپ کو چھوٹی چھوٹی باتوں کے دائرے اور ذہنی تنگ نظری کے اصولوں میں باندھ لیا ہے۔ پادریوں کو بھی قدامت پسندی اور بنیاد پرستی سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنے چاہئیں۔“
کیا یہی بات کوئی بعض مساجد کے بارے میں کہہ سکتا ہے۔ جن مساجد کے اندر بم دھماکے کئے جاتے ہیں اور جن مدرسوں کے اندر خود کش حملوں کی تربیت دی جاتی ہے۔ کونسا مذہب ہے جو مجرموں کی طرح دبے پاﺅں محفلوں میں آ کر خود کش حملوں کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام کا نام لینے والے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کو اسلام کی کس شق میں رکھنا چاہتے ہیں۔ پوپ فرانسس نے اس عہدہ جلیلہ کو سنبھالنے کے بعد اپنے معاشرے میں پھیلتی ہوئی بہت سی پرائیوں کی مذمت بھی کی ہے اور ان کا حل تلاش کرنی کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے آج کئی کیتھولک شادی کے بغیر ایک دوسرے ساتھ رہ رہے ہیں جو صحیح نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں شادی عارضی ہو گئی ہے۔
حقیقت میں شادی ہی کسی معاشرے کی تکمیل میں ترقی کا باعث ہوتی ہے۔ اس بندھن سے آزاد معاشرہ کس قسم کی نسل پیدا کرے گا مگر کئی دوسرے معاشرے بشمول مسلم معاشرہ ان راہوں پر ازخود چلنے کے لئے تیار ہو گئے۔ انڈیا نے اس ریلیشن شپ کی ترویج کے لئے اپنی فلموں میں ایک نیا معاشرہ بنا ڈالا، جہاں ناجائز بچوں کی قبولیت کی سند ملنے لگی۔ جہاں جہاں یہ فلمیں دیکھی جاتی ہیں وہاں وہاں ان کا اثرونفوذ ضرور جائے گا۔
مغربی دنیا کی بہت سی علتیں رفتہ رفتہ ساری دنیا میں پھیلنے لگی ہیں۔ لوگ ایک عجیب قسم کی غیرانسانی آزادی مانگنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں، جس نے تشدد پسندی کے راستہ کو ہموار کیا ہے۔
پوپ فرانسس نے عالمی مالی نظام پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ اس عالمی مالی نظام کی وجہ سے بھی ہوس دولت کی ایک دوڑ لگ گئی ہے۔ دنیا ایک ہی سمت چل پڑی ہے۔ دنیا میں عزت صرف کام سے ہوتی ہے۔ اگر اصولوں پر رہ کر زندگی بنائی جائے تو دکھ کم ہو جاتے ہیں۔ جس طرح عیسائی سماج کی بعض معاشرتی بُرائیوں پر جناب پوپ فرانسس نے کھل کر بات کی ہے اور معاشرے میں اعتدال پسندی لانے کے لئے دنیا بھر کے بشپوں کو ایک سوال نامہ بھجوایا جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ان سارے سوالات کا جواب تلاش کر کے لائیں جن پر 2015ءمیں ہونے والے بشپ اجلاس میں غور کیا جائے گا۔ تاکہ معاشرے کے ندر ٹوٹتی پھوٹتی قدروں کا حل تلاش کیا جائے۔
آج مسلم معاشروں میں بھی اسی قسم کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اعتدال پسند جید علماءسرجوڑ کر بیٹھیں اور اتفاق رائے سے پہلے وہ کانٹے چنیں جو آج معاشرے کی چبھن کا باعث بن رہے ہیں۔ صرف الزام دیتے رہنا اور الزام وصول کرتے رہنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے دنیا ایک کروٹ لے رہی ہے۔ اور اس کروٹ میں مسلمان تہ و بالا ہو رہے ہیں۔ یہ شہادت اور عبادت پر بے اثر بحث کرنے والے مسلمان کیا آج اپنا آپ تلاش کرنے کے لئے متحد ہو کر بیٹھ سکتے ہیں؟