حضرت حسن کہتے ہیں ،حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب بھی دوپہر یارات کا کھانا تناول فرمانے لگتے تو اپنے آس پڑوس کے یتیموں کو بلا لیتے ۔ایک دن دوپہر کا کھانا کھانے لگے تو ایک یتیم کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا لیکن وہ یتیم نہیں ملا،لہٰذا اس کے بغیر ہی کھانا شروع کردیا گیا ۔ کھانے کے بعد حضرت عمر کے لیے میٹھے ستو تیار کیے جاتے تھے جسے وہ کھانے کے بعد پیاکرتے تھے جب اُن کی خدمت میں ستو پیش کیے گئے تو اتنے میں وہ یتیم بچہ بھی آگیا ۔حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنے ہاتھ میں ستو کا پیالہ پکڑا ہوا تھا وہ اس بچے کو دے دیا اورفرمایا یہ لو میرا خیال ہے تم نقصان میں نہیں رہے ۔حضرت ابو جعفر قاری جو عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ المخزومی کے غلام تھے کہتے ہیں کہ مجھے میرے آقا نے حکم دیا کہ تم حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر کرو اور ان کی خدمت کرو،چنانچہ میں ان کے ساتھ شریک سفر ہوگیا وہ جب بھی کسی چشمے پر پڑاﺅ ڈالتے تو چشمے والوں کو اپنے ساتھ کھانے کے لیے مدعو کرتے ، ان کے بیٹے بھی ان کے ساتھ آکر کھانا کھاتے ، بعض اوقات ہر آدمی کے حصے میں دو یا تین لقمے ہی آتے تھے ۔ایک بار حجفہ کے مقام پر ان کا قیام ہوا تو وہاں کے لوگ بھی ان کی دعوت پر کھانے میںشریک ہوئے اتنے میں ایک برہنہ سیاہ فام بچہ بھی وہاں آگیا آپ نے اس کو بھی بلا لیا ، اس نے کہا مجھے تو بیٹھنے کی جگہ نظر نہیں آرہی یہ سب لوگ بہت مل مل کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر اپنی جگہ سے تھوڑا سا ہٹ گئے اوراس لڑکے کو اپنے سینے کے ساتھ لگا کر بیٹھا لیا۔ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر کو مچھلی کھانے کی خواہش ہوئی آپ کی اہلیہ صفیہ نے بڑے اہتمام سے لذیذ مچھلی تیار کی ، ابھی دسترخوان چناہی گیا تھا کہ ایک فقیر نے صدالگائی ، آپ نے فرمایا یہ مچھلی فقیر کو دے دو، اہلیہ کو عذر ہوا آپ نے دوبارہ فرمایا کہ نہیں اسے ہی دے دومجھے تو یہی پسند ہے ۔ اہلیہ نے چونکہ آپ کی فرما ئش پر بڑے شوق سے پکائی تھی اس لیے ان کی طبیعت آمادہ نہیں ہورہی تھی انھوںنے فقیر کو راضی کرلیا کہ تم کھانے کی بجائے نقدی لے لو۔اس نے رضاءمندی کا اظہارکیا تب آپ نے وہ مچھلی تناول فرمائی ۔ایک مرتبہ آپ علیل ہوگئے ،طبیب کی تجویز پر کھانے کے لیے انگور کا ایک خوشہ خریدا گیا ، تناول فرمانے لگے تو ایک سائل آگیا آپ نے حکم دیا کہ انگو ر اسے دے دو ،لوگوںنے عرض کیا آپ اسے کھالیں اس کو کچھ اور دے دیا جائے گا، فرمایا : نہیں ، یہی دے دو۔مجبوراً وہی دینے پڑے اوردینے کے بعد پھر اسی سے خریدے گئے۔حضرت عبداللہ بن عمر کے غلا م نافع کا بیان ہے کہ آپ ایک نشست میں بیس ہزار درہم تک لوگوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔تقسیم ہوجانے کے بعد جو لوگ آتے ان کو انہی لوگوں سے قرض لے کر دیتے جن کو پہلے دے چکے ہوتے ۔ (ابن سعد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38