پیر‘ 20 محرم الحرام ‘ 1435ھ ‘ 25 نومبر2013
عمران کا دل طالبان اور تلوار امریکہ کے ساتھ ہے : پرویز رشید !
ہمارے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے جس خوبصورتی سے عرب شاعر کا یہ جملہ جو کوفیوں کیلئے استعمال ہُوا تھا عمران خان پر فٹ کیا ہے وہ قابل داد ہے اس لئے اقبالؒ نے بھی درست فرمایا تھا....
حقیقت میں ابدی ہے مقامِ شبیریؓ
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
بدقسمتی سے ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم نے ہر سطح پر دوغلی پالیسی اور دوہرا معیار اپنایا ہُوا ہے۔ ہم غلط کو دل سے بُرا مانتے ہوئے بھی اسے بُرا نہیں کہتے، کبھی فساد خلق کے خوف سے، کبھی سچ کے خوف سے کہ ہمارے معاشرے میں سچ کہنا بھی جرم بن جاتا ہے۔ جس دن ہم نے حق اور سچائی کی راہ پر چلتے ہوئے یہ دوہرا معیار ترک کر دیا اس روز ہم کامیاب ہوں گے ورنہ اسی طرح ظالم کو مظلوم اور بُرے کو اچھا کہنا ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گا۔ کتنے لوگ ہیں جو طالبان یا امریکہ کے بارے میں رائے دیتے ہوئے ایمانداری سے کام لیتے ہیں، زیادہ تر لوگ اپنے جذبات کے اظہار کے وقت عقل اور سچائی سے رشتہ توڑ لیتے ہیں ایسے میں وہ حقائق سے بھی منہ پھیر لیتے ہیں۔ امریکہ ہو یا طالبان ان دونوں کی باہمی جنگ نے ہمیں روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا ہے اور ہم ہیں کہ کسی کو بھی روکنے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں کیونکہ ہم سب کے دل کسی ایک کے ساتھ اور تلواریں دوسرے کے ساتھ ہیں۔ جسکا نتیجہ ظاہر ہے ہم دوچکی کے پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
ڈرون اور ڈار دونوں قوم کیلئے مصیبت ہیں : حافظ حسین احمد !
عرصہ بعد حافظ حسین احمد کی طرف سے ایک کاٹ دار بیان سامنے آیا۔ مزاحیہ انداز میں پتے کی بات کہنے کے فن میں حافظ جی بھی لاجواب ہیں۔ اب دیکھیں ناں ڈرون حملے ہوں یا ڈار صاحب کی اقتصادی پالیسیاں ان دونوں میں اگر کوئی چیز مشترک ہے تو وہ ہے ”عوام دشمنی“ دونوں کا مقصد عوام کا دھڑن تختہ کرنا ہوتا ہے، دونوں اوپر سے حملہ آور ہوتے ہیں اور دونوں کا ریموٹ بیرونی عوامل کے ہاتھ میں ہے اور دونوں کی زد میں بیچارے پاکستانی آتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ چُھٹی کے دنوں میں دینی و مذہبی جماعتوں اور اب تحریک انصاف کے دھرنوں اور ہڑتالوں کے باوجود یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ دروغ بر گردن راوی کہنے اور سُننے میں تو یہی آتا ہے کہ اندرون خانہ یہ سب جماعتیں اور ان کے رہنما شام ڈھلے یا خاموش لمحات میں ڈالروں کی سودا گری میں ملوث پائے جاتے ہیں اور تختِ اسلام آباد تک رسائی کی صورت میں اپنی بے مثل خدمات تک بیرونی آقاﺅں کو پیش کرتے ہیں ورنہ جب تک یہ ریٹائرڈ آرمی افسران جو فوج میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے تو انہوں نے کبھی ضمیر کی آواز کیوں نہ سُنی اور جو سیاستدان اور جماعتیں مشرف کو کاندھوں پر اُٹھاتی تھیں انہوں نے اس وقت حرکت کیوں نہ کی؟ لگتا ہے کہ یہ سب شور شرابا، غل غپاڑہ صرف نرخ بڑھانے کیلئے ہے۔
خیبر پی کے کے وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ ”37 ارب تو دور کی بات امریکہ سے ایک ڈالر بھی نہیں لیا۔“ اب معلوم نہیں یہ ایڈ، امداد یا فنڈ کس بلا کا نام اور کہاں سے آتی ہے کہاں خرچ ہوتی ہے اس کا صوبائی حکومت کو یا وزیر اعلیٰ کو کیا معلوم، ان کو دیگر امور پر بھی توجہ دینی ہوتی ہے مثلاً دھرنے وغیرہ اس لئے یہ اربوں ڈالر کہاں سے آتے ہیں کہاں جاتے ہیں وہ کیا جانیں ....
ایچ پیچ قانون کے اور انصاف کے تانے بانے
یاتو جانے اوپر والا یا پھر لوگ سیانے بیگم جان بھلا کیا جانے
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
32 ہزار اشتہاری لاہور میں روپوش، جرائم کی شرح بڑھنے لگی !
پنجاب کے دل میں یہ بدبخت اشتہاری ملزمان جس طرح ”بلاکیج“ پیدا کر رہے ہیں اس کے اثرات پورے جسم پر مرتب ہو رہے ہیں۔ جس طرح دل کی بند شریانوں کو کھولنے کیلئے ”انجیو پلاسٹی“ ضروری ہے اسی طرح ان 32 ہزار حرام خوروں سے لاہور شہر کو پاک کرنے کیلئے اب سخت آپریشن کی ضرورت ہے۔
لاہور جو کچھ عرصہ سے پہلے تک نغموں، قہقہوں، تہواروں اور میلوں ٹھیلوں کا شہر تھا لاہوری من موجی اور بے فکر کہلاتے تھے جہاں محبت کی زبان بولی جاتی اور سمجھی جاتی تھی ایک دوسرے کو معاف کرنا ایک دوسرے کا احترام کرنا جس کا خاصا تھا زندہ دلی جہاں کے باسیوں کے وجود میں رچی بسی ہوئی تھی کو آج ان جرائم پیشہ افراد سے خطرہ لاحق ہے۔ یہ لوگ جن میں غیر ملکی افغان اور کراچی سے آپریشن کے بعد فرار ہو کر بھاگنے والے شرپسند سیاسی و جرائم پیشہ افراد شامل ہیں جو یہاں آ کر اس پُرامن شہر کے ماحول کو پراگندہ کر رہے ہیں۔ لاہور میں قائم سینکڑوں غیر قانونی کچی آبادیاں ،رہائشی و کمرشل علاقے ان کی پناہ گاہیں بن چکی ہیں پولیس کا کام ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں کارروائی کریں، کرایہ داروں کی چھان بین کریں تو بہت سا گند سامنے آ سکتا ہے لیکن اگر یہ گند صاف کرنے کی بجائے اس میں سے اپنا حصہ وصول کرنا مقصود بن گیا تو پھر جرائم کی شرح کم کرنے کا خواب خواب ہی رہے گا، اس لئے پوش علاقوں سمیت تمام نوگو ایریاز جو اب لاہور میں بھی بن چکے ہیں ذرا جھانک کر دیکھیں کہیں سے زلفِ بنگال، کہیں سے چشمِ کراچی اور کہیں سے حُسنِ افغان پوری حشر سامانیوں کے ساتھ ہتھیار سجائے جلوہ گر ہو گا۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭