وزیراعظم کی بھارت کو ویزے کی پابندیاں ختم کرنے کی پیشکش اور بھارت کا دیوارِ برلن بنانے کا منصوبہ
وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ بھارت سے اچھے تعلقات کے دلدادہ ہیں۔ الیکشن 2013ءسے پہلے انہوں نے بھارت کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا اور الیکشن کے پانج روز بعد بھارت کے ایک معروف اینکر کو انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت سے اچھے تعلقات اور دوستی چاہتے ہیں، اب خواہش ہے کہ دونوں ملک ویزہ کی رکاوٹ بھی ختم کر دیں۔ گذشتہ روز چوتھی الحمراءعالمی ادبی و ثقافتی کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے ایک ہندو مہمان کو دیکھ کرکہا کہ انہوں نے 1997ءکے انتخابات میں بھی بھارت کے خلاف کوئی بات نہیں کی تھی لیکن بھارت میں الیکشن ہے تو پاکستان کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں، ہمیں اس صورتحال سے باہر نکلنا چاہئے۔ ہم نے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے دونوں طرف سے ایسی باتوں سے احتراز کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ بھارت میں عام انتخابات کے بعد فضا سازگار ہو گی۔ ہم بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں ہمارے باقی ہمسایوں ایران چین کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور افغانستان سے بھی تعلقات اچھے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر دونوں اطراف سے فائرنگ دونوں ممالک کیلئے بہتر نہیں مگر اس معاملہ میں بھی بدگمانیاں اتنی نہیں جتنی پھیلائی جاتی ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کی جانب سے جو پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہیں، پاکستان کے ” کشمیر ہضم قصہ ختم“ کی پالیسی رکھنے والے ازلی دشمن بھارت کیلئے بے پایاں وارفتگی پر مبنی یہ باتیں سُن کر آج قوم کا ہر فرد سناٹے میں آ چکا ہو گا اور یقیناً ملک کے مستقبل کیلئے فکر مند بھی ہو گا کیونکہ وزیراعظم پاکستان کا بھارت کے ساتھ ویزے کی پابندی ختم کرنے کی خواہش کا اظہار درحقیقت دونوں ممالک کے مابین سرحدیں مٹانے کی خواہش کا اظہار ہے۔ وہ سرحدیں جو قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کی جانوں اور ان کی عفت مآب ماﺅں، بہنوں، بیٹیوں کی عصمتوں کی قربانیوں کے صدقے ایک آزاد اور خود مختار ملک کے دنیا کے نقشے پر آبرو مندی کے ساتھ نمودار ہونے کی صورت میں قائم ہوئی تھیں۔ آج یقیناً ملک کا ہر شہری یہ سوچ رہا ہو گا کہ مسلم لیگی حکمرانوں کی جانب سے اگر سرحدیں مٹانے کی خواہش کا ہی اظہار ہونا تھا تو پھر برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے حصول کی خاطر بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کو تصورِ پاکستان پیش کر کے اس کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے اور اس جدوجہد میں اپنے الگ خطہ¿ ارضی کی تمنا رکھنے والے مسلمانوں کو عظیم قربانیاں دینے کی کیا ضرورت تھی۔ وزیراعظم کی اس خود غرضانہ خواہش سے اہل پاکستان کو بالخصوص اس لئے بھی تکلیف ہوئی ہو گی کہ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت نے تو لائن آف کنٹرول پر دیوارِ برلن کی طرز کی اس سے بڑی سکیورٹی دیوار کی تعمیر کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے مگر ہمارے خوش فہم وزیراعظم ویزے کی پابندی ہٹوا کر بھارت کو پوری آزادی کے ساتھ پاکستان کے اندر دخل درنا معقولات کی کھلی چھوٹ دینے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں ۔ان کی اس خواہش کو حب الوطنی کے پیمانے کے ساتھ ناپا جائے تو یہ ساری حدود عبور کرتی وطن عزیز کو اس کے دشمن کے آگے سرنڈر کرانے کا پیغام دیتی نظر آتی ہے۔
وزیراعظم کے اقرباءپر مبنی ان کا اپنا خاندان بھی تحریک پاکستان کی جدوجہد کی کامیابی کے بعد جاتی عمرہ امرتسر سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا انہوں نے یہاں جاتی عمرہ کی نشانی کو توبرقرار رکھا ہے مگر ان کے والد محترم بھارت میں اپنا کاروبار چھوڑ کر اپنے خاندان سمیت ہجرت کر کے پاکستان آنے پر کیوں مجبور ہوئے، قیامِ پاکستان کے پس منظر میں موجود ان تلخیوں کا احساس و ادراک کرتے ہوئے کوئی پاکستانی شہری بالخصوص بھارت سے ہجرت کر کے آنے والا پاکستانی شہری بھارت کے ساتھ سرحدیں مٹانے اور ویزے کی پابندی ختم کرنے کی بات کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ گذشتہ روز جس پلیٹ فارم پر وزیراعظم نے یہ بات کی اس کی بھارت کے ساتھ تجارت سے زیادہ ثقافتی روابط بڑھانے کیلئے سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں جبکہ اس پلیٹ فارم پر منعقد ہونے والی عالمی ادبی و ثقافتی کانفرنس حکومتِ پنجاب کے علاوہ امن کی آشا کے داعیان کی بھی سپانسرڈ ہے جس کے بھارت کے ساتھ تعلقات کے ایجنڈے کا پس منظر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور پھر اس کانفرنس کے میزبان بھارتی مہمانوں کو کانفرنس میں شمولیت کی دعوت دینے خود بھارت گئے تھے۔ اس تناظر میں وزیراعظم میاں نواز شریف جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں انتخابات میں بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کا مینڈیٹ ملا ہے تو درحقیقت یہی معدودے چند عناصر انہیں یہ مینڈیٹ دینے والے ہیں جن کے پلیٹ فارم” سیفما “پر میاں نواز شریف نے دو سال قبل خطاب کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ وارفتگی کے شوق میں سکھوں اور مسلمانوں کو ایک ہی خدا کے ماننے والے قرار دے کر یہ تک کہہ دیا تھا کہ کشمیر کے تنازعہ پر دونوں ممالک کو اپنے اپنے مو¿قف سے پیچھے ہٹنا ہو گا۔ اسی طرح لینڈ سلائیڈ نگ کے سانحہ¿ کارگل کے بعد انہوں نے دونوں ممالک کی افواج کارگل سیکٹر سے واپس بلوانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا جس کا پاکستان ہی نہیں، بھارت کے آرمی چیف نے بھی سخت جواب دیا جبکہ میاں صاحب کے دل میں بسی یہ خواہش آج بھارت کے ساتھ ویزے کی پابندی ختم کرنے کی خواہش کی صورت میں سامنے آ گئی ہے تو قوم سوچ رہی ہے کہ دشمن کے آگے ہماری پسپائیوں اور ہزیمتوں کی کوئی حد اب باقی بھی رہ گئی ہے یا نہیں۔
پڑوسیوں کے ساتھ اچھے دوستانہ مراسم کی خواہش اپنی جگہ اور یہ بھی درست ہے کہ ہمسائے تبدیل نہیں کئے جا سکتے مگر کیا یکطرفہ طور پر اس خواہش کو پروان چڑھا کر کسی قسم کے تعمیری مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں؟ کیا پاکستان بھارت کشیدگی کا پس منظر بھی محترم وزیراعظم کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے جبکہ اس پس منظر میں پاکستان کی سلامتی برباد کرنے کے بھارتی اقدامات و عزائم کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ بے شک جنگیں مسائل کا حل نہیں ہے اور کوئی تنازعہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل ہو سکتا ہے تو اس سے مستحسن اور کوئی اقدام نہیں ہو گا مگر کیا ہم اس کیلئے تالی صرف اپنے ایک ہاتھ سے ہی بجاتے رہیں جبکہ بھارت نے خود کشمیر کاتنازعہ کھڑا کرکے اور پھر یو این قراردادوں کو درخورِ اعتنا نہ سمجھتے ہوئے کشمیر پر اپنا غاصبانہ تسلط جما کر پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور سرد مہری کا آغاز کیا تھا۔ اس نے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا، 71ءکی جنگ میں مکتی باہنی کو ساتھ ملا کر پاکستان کو دولخت کرنے کی سازش بھی پایہ¿ تکمیل کو پہنچائی اور پھر باقیماندہ پاکستان کی سلامتی ختم کرنے کیلئے خود کو ایٹمی ٹیکنالوجی سے لیس کر لیا، ہماری سالمیت کے خلاف یہ گھناو¿نی بھارتی سازشیں آج بھی نہ صرف برقرار ہیں بلکہ کنٹرول لائن پر بھارتی فوجوں کی مسلسل چھیڑ چھاڑ سے ان سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے بھی مسلسل پیغامات دئیے جا رہے ہیں جبکہ وزیراعظم اس یکطرفہ بھارتی جارحیت کو بھی دوطرفہ فائرنگ کا نام دے کر اس پر تشویش کا اظہار اور ملک کی سرحدوں کا دفاع کرنے والی سکیورٹی فورسز کے جوابی اقدامات کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں قوم پریشان ہے کہ کیا محض ذاتی تجارت کو فروغ دینے کی خواہش کے تابع ہمارا کوئی حکمران جو مسلم لیگی بھی ہو، کیا ملک کی سالمیت کو پلیٹ میں رکھ کر اپنے دشمن کے حوالے کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف آج بھارت کے ساتھ ویزے کی رکاوٹیں ختم کرنے اور تجارت بڑھانے کی جس خواہش کا اظہار کر رہے ہیں، کیا ایسی ہی سوچ کے تابع بعض دینی اور مفاد پرست سیاسی طبقات نے تحریک پاکستان کی مخالفت نہیں کی تھی؟ آج شاید ان عناصر کی باقیات کو بھی ایسی خواہش کے اظہار کی جرا¿ت نہیں ہو سکتی ہو گی جس حد تک وزیراعظم نواز شریف جستیں بھرتے ہوئے بغل میں چُھری دبائے بھارتی بنئے کے ساتھ شیر و شکر ہونے کیلئے بے تاب نظر آ رہے ہیں۔ اس تناظر میں بہتر یہی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اپنے مو¿قف سے فی الفور رجوع کر لیں اور فی الواقع مسلم لیگی لیڈر بن کر دکھائیں ورنہ عوام کے ہاتھوں ان کے اقتدار کا ”بولو رام“ ہوتے بھی کوئی دیر نہیں لگے گی۔