امت کی بیٹیاں اور انکے حقوق
عورت کی زندگی مختلف روپ میں ہمارے سامنے آتی ہے، کہیں وہ ماں ہے، کہیں بہن، کہیں بیٹی اور کہیں بیوی۔ وہ اپنی زندگی کے روز و شب میں دنیا کے اس سٹیج پر مختلف کردار اد اکرتی ہے۔ کبھی گھر کی چار دیواری کے اندر اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیتی نظر آتی ہے تو کہیں اپنے گھر والوں کیلئے محنت کی روزی کمانے گھر سے باہر اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے انجام دیتی ہے۔ تمام حقائق کے باوجود آج پاکستانی معاشرے میں اُمت کی ان بیٹیوں کی جس طرح تذلیل کی جاتی ہے، اُنہیں کیسے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، وہ ایک قابل غور المیہ ہے۔ معاشرے میں عورت و مرد ایک ہی گاڑی کے دو پہئے ہیں۔ پورا نظام معاشرت ان دونوں کے دم قدم سے قائم و دائم ہے، لیکن اسکے باوجود عورت کو بے حقیقت سمجھتے ہوئے اُسے آج بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ دین حق اسلام نے تو عورت کو وہ حقوق دئیے ہیں جن کی ادائیگی کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ وراثت میں اُسے حصہ دیا گیا اور رحمت للعالمین نے واضح اعلان فرمایا: ”جنت ماﺅں کے قدموں کے نیچے ہے“ یہاں تک کہ بروزِ محشراعمالوں کے احتساب کیلئے مُردہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو اُن کی ما¶ں کے حوالے سے پکارا جائے گا۔ لیکن آج ملت اسلامیہ کی وہی بیٹیاں مایوسی اور محرومی کا شکار ہیں جو ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، آج وہیں یہ حال ہے کہ گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو پیشانی شکنوں سے بھر جاتی ہے ۔ بیٹے کی پیدائش قابل فخر و قابل عزت سمجھی جاتی ہے۔ ظلم کی انتہا ہے کہ اگر کسی گھر میں پے در پے بیٹیوں کی پیدائش ہو جائے تو عورت کو طلاق جیسے ظلم کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ صنف نازک کی یہ بے قدری اور ذلت اُسے اس کی بے وقعتی کا احساس دلاتی ہے۔ ہمارا دین تو عورت کے ساتھ نرمی، ملائمت، انصاف، خوش مزاجی اور رواداری سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے لیکن آ ج معاشرے میں مردوں کی اکثریت ا س خوف میں مبتلا ہے کہ اگر عورت کو اس کے حقوق دے دئیے گئے تو عورت کے معیارِ فطرت میں تبدیلی آ جائےگی اور وہ خود مختار اور آزاد ہو جائے گی، جس سے مردوں کی اجارہ داری مجروح ہوگی۔ مرد جو مدتوں سے کرہ¿ ارض پر حکمرانی کرتے چلے آ رہے ہیں وہ اُس میں کسی کی شرکت اپنی انا پر ضرب سمجھتے ہیں جبکہ اسلام نے حصول علم کو مرد اور عورت دونوں پر فرض قرار دیا ہے۔ گویا آگہی کے در عورت کے لیے بھی کھول دئیے گئے ہیں۔ ارشادِ نبوی ہے کہ :
”علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت ) پر فرض ہے۔“ لیکن انتہائی حیرت انگیز امر ہے کہ ہمارے ملک میں عورتوں کی شرحِ خواندگی صرف چند فیصد ہے۔ اسی تعلیم سے دوری کا نتیجہ ہے کہ عورت کو تمام حقوق سے محروم کرکے کہیں اس کی شادی قرآن سے کر دی جاتی ہے ، کہیں جائیدادیں بچانے کیلئے اسے کاری قرار دے دیا جاتا ہے۔ کہیں اسے ستی کر دیا جاتا ہے اور علم سے دوری اُسے آوازِ حق اٹھانے سے روکتی ہے۔ وہ ظلم سہتی ہے۔ یہ سوچ کر کہ یہی اس کا نصیب ہے۔
یہ سب صرف اور صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ آج بھی اس معاشرے میں عورتوں کی اکثریت اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہے اور کم علمی اور تعلیم و شعور کی کمی نے اُنہیں کمزور اورمجبور وجود بنا دیا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو خود مظلوم و بے بس سمجھ کر اپنے اوپر ظالموں کو حاوی کیا ہے اور یہی اس کی بنیادی غلطی ہے۔ تاریخ اسلامیہ کے اوراق کو پلٹیں تو ہمیں ایسی ایسی ہمت و استقلال کا پیکر ، عزم وحوصلے کی مثال خواتین نظر آئیں گی جنہوں نے اپنے سنہرے کارنامے تاریخ کے اوراق پر رقم کر دئیے۔ یہ وہ خواتین تھیں جو انتہائی حوصلے و ہمت کے ساتھ مجاہدین کے ساتھ میدان جنگ میں موجود رہیں۔ کہیں غزوات میں زخمی ہونے والوں کی مرہم پٹی کرتی نظر آتیں، کہیں اُنہیں پانی پلاتیں۔ ان کی نگہداشت کا فرض ادا کرتی نظر آتیں۔ انہوں نے تجارت بھی کی اور حکمرانی بھی۔ گھروں کو بھی سنبھالا اور علم و ادب میں اعلیٰ مقام بھی حاصل کیا۔ یہ وہ مسلم خواتین تھیں جو مظلومیت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی نہیں رہیں بلکہ اپنی زندگیوںکو لوگوں کیلئے مثال بنا دیا۔ خالق کائنات نے انسانوں کی تخلیق کیلئے بھی عورت کا انتخاب کیا۔ آج مذہبی دانشوروں، علمائے کرام اور دانشوروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں معاشرے میں عورت کو اس کا وہ مقام دلائیں جو اس کے دین نے اسے دیا ہے تاکہ معاشرے میں پھیلے تفرقے اور انتشار کا خاتمہ ہو سکے اور آج پاکستانی عورت اپنے اصل منصب اور مقام کو پا لے۔