حقیقت ِ حسین ؑ .... اقبال کی نظر میں

oجو کوئی ھوالموجود کے ساتھ پیمان وفا باندھ لیتا ہے، اسکی گردن ہر معبود کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے۔
oمومن عشق سے ہے اور عشق کا وجود مومن سے ہے، عشق کےلئے ہمارا ناممکن ممکن ہوتا ہے۔
oعقل سفاک ہے اور عشق سفاک تر، عشق پاک کر، چالاک تر اور بے باک تر ہے
oعقل اسباب و عول وجوہات کے جھگڑوں چکر میں گرفتار ہے، عشق میدان عمل کا بازی گر ہے۔
oعشق زور بارو سے اپنا شکار کرتا ہے، جب کہ عقل مکار ہے اور جال بچھاتی ہے۔
oعقل کا سرمایہ خوف اور شک ہے، عشق کا نصیب پائیدار عزم و یقین ہے۔
oعقل ویران کرنے کےلئے تعمیر کرتی ہے، عشق آباد کرنے کےلئے بے آباد کرتا ہے۔
oعقل دنیا میں ہوا کی طرح کم قیمت ہے، عشق کم یاب ہے اور اس کا نرخ بالا ہے۔
oعقل کی بنیاد کب کیوں اور کیسے کے سوالات اٹھاتی ہے، عشق ان سوالات سے عاری ہے۔
oعقل کہتی ہے کہ خود کو پیش کر، عشق کہتا ہے کہ اپنا امتحان لے۔
oعقل حصول کی بنیاد پر غیر سے آشنا ہے، عشق فضل الٰہی سے ہے اور اپنا محاسبہ کرتا ہے۔
oعقل کہتی ہے شاد و آباد رہ، عشق کہتا ہے بندہ بن اور آزاد رہ۔
oعشق کےلئے روحانی سکون آزادی ہے، آزادی عشق کی اونٹنی کےلئے سارباں ہے۔
oتو نے کچھ سنا کہ وقت جنگ عشق نے ہوس پرور عقل کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
oوہ امام عاشقاں، پور بتول، وہ باغ رسالت کا سرو آزاد۔
oاللہ کی شان! باپ (علی) بسم اللہ کی ”ب“ کی مانند اور بیٹا ”ذبحِ عظیم“ کی حقیقت سے آشنا!!
oوہ امتوں میں سے بہترین امت کا شہزادہ! جس کےلئے خاتم المرسلین کے کاندھے بہترین سواری بنے۔
oجس کے خون سے غیرت مند عشق سرخ رو ہوا، مصرعِ عشق کی شوخی جس کے مضمون سے ہے۔
oآتا ہے دو عالم کی اُمت میں اس ہستی کا مرتبہ ایسے ہے، جیسے قرآن مجید میں سورة اخلاص۔
oموسیٰؑ اور فرعون، امام حسینؓ، اور یزید، زندگی سے یہ دو قوتیں ظاہر ہوئیں۔
oحق حسینی قوت سے زندہ ہے، باطل آخر کار داغ حسرت اور موت ہے۔
oجب خلافت نے قرآن سے رشتہ توڑ لیا، آزادی کے حلق میں زہر ٹپکا دیا۔
oاس وقت اس جلوہ¿ خیر الاحم نے سر اٹھایا، اسلام کا بادل رحمت کی بارش لے کر امڈا۔
oسرزمین کربلا پر برسا اور چلا گیا، بیابان میں پھول اُگائے اور رخصت ہو گیا۔
oتاقیامت ظلم و ستم کی جڑ کاٹ دی، اس کے خون کی موج نے باغ مہکا دیا۔
oرضائے الٰہی کےلئے خاک و خون میں تڑپا، حتیٰ کہ لاالٰہ کی بنیاد قرار پایا۔
oاگر اس کا مقصد حصول اقتدار ہوتا، تو کبھی اتنے معمولی ساز و سامان کے ساتھ کربلا کا سفر نہ کرتا۔
oاسکے دشمن صحرا کی ریت کی طرح لاتعداد تھے، اور اسکے دوست خدا کی طرح یکا و تنہا۔
oوہ ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کا راز تھا، وہ اس اختصار کی تفصیل تھا۔
oآپ کا عزم پہاڑوں کی طرح مضبوط تھا، وہ پائیدار، تیز رفتار اور کامیاب تھا۔
oاس کی تلوار فقط عزت دین کے کام آئی، اس کا مقصد محض اسلامکی قانونی کی حفاظت تھا۔
oمسلمان اللہ کے سوا کسی کا بندہ نہیں، کسی فرعون کے سامنے اس کا سر نہیں جھکتا۔
oحسینؓ کے خون نے ان رازوںل کی وضاحت کر دی، سوئی ہوئی قوم کو بیدار کر دیا۔
oلامعبود کی تلوار جب میان سے باہر نکلی، ارباب باطل کی رگوں سے خون نچوڑ دیا۔
oالااللہ کا نقش صحرا کی ریت پر تحریر کر دیا، ہماری نجات کا عنوان تحریر کر دیا۔
oہم نے قرآن کی رمز حسین سے سیکھی، اس کی آگ سے ہم نے شعلے جمع کئے۔
oشام اور بغداد کی شان و شوکت بھول گئی، سطوت غرناطہ ذہنوں سے محو ہو گئی۔
oاسکے زخم کی ضرب سے دل کی تاریخ ابھی تک لرز رہے ہیں، اسکی تکبیر سے ابھی تک ایمان تازہ ہے۔
oاور اس پاک سرزمین پر نچھاور کر دے!! اے باد صبا! ہم دور افتادگان کے آنسو لے جا!