شیریں مزاری، فیاض چوہان ، مسرت چیمہ، جلیل شرقپوری نے بھی پی ٹی آئی کو الوداع کہہ دیا
عجب بات ہے کل کے یار آج یوں ساتھ چھوڑ رہے ہیں گویا کبھی جانتے بھی نہ تھے۔ اس پر خان صاحب تو تنہائی میں آنسو بہاتے ہوئے ’’دوست کچھ ایسے بنائے ہیں کہ جی جانتا ہے‘‘ کہہ کر تکیے بھگوتے ہوں گے۔ مگر یہ سب کچھ ان کا اپنا کیا دھرا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں دوستوں کو اتنی آزمائش میں نہ ڈالو کہ وہ ٹوٹ جائیں اور بعد میں ’’کل تک جو کہتے تھے اپنا آج وہی بیگانے ہیں‘‘ کہنے کی نوبت آ جائے۔ کوئی بھی محب وطن سیاستدان اور پاکستانی عمران خان کی دہشت گردانہ توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو والی سیاست کی حمایت نہیں کر سکتا۔ وہ ان کی ہٹ دھرمی اور ملک کے محافظ اداروں سے دشمنی کے رویے سے نالاں آ گئے ہیں۔ شہدا کی تصویروں یادگاروں کی بے حرمتی جناح ہائوس (کور کمانڈر ہائوس) قلعہ بالا حصار۔ جنگی طیاروں کے ماڈلز اور سب سے بڑھ کر جی ایچ کیو پر حملہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کا مطلب بزدلی اور دشمنوں کے آگے سر جھکانا لیا جا سکتا تھا اس لیے اب اس کا نرم قانونی انداز میں جواب دیا جا رہا ہے جو پی ٹی آئی والوں سے بڑی رعایت ہے۔
جب کوئی سیاسی جماعت اپنی راہ سے ہٹ کر دہشت گرد جتھہ بن جائے تو پھر عقل سلیم رکھنے والے اس سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ یہ بات پی ٹی آئی کے عمران خان کی عقل شریف میں نہیں آ رہی۔ خدا جانے وہ کیوںخود کو سپرمین یا ہرکولیس سمجھنے لگے ہیں ۔ سب سے ٹکرانے کی باتیں کرتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ جب سے گولی سے ٹانگ معمولی زخمی ہوئی چھ ماہ پلستر چڑھائے گھر میں دبکے رہے۔ جب بھی عدالت آتے ہیں فولادی پلیٹوں کی آڑ میں آتے ہیں۔ اب تو وہیل چیئر پر بھی لوہے کی ٹوپی پہنے آنے لگے تھے۔ جب آدمی خود اتنا بودا ہو وہ رستم ثانی بننے کا خواب کیوں دیکھے۔ ان کی اقتدار سے محرومی کے بعد جو حالت بنی ہوئی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کبھی امریکہ کبھی پاکستانی فوج کبھی پی ڈی ایم کس کس کو انہوں نے نشانہ پرنہیں رکھا۔ پھر 9 مئی کو اس ڈرامے کا کلائمیکس بھی سب نے دیکھ لیا سکیورٹی فورسز پر قومی و فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے ۔ اس کے بعد تو جو ہونا تھا وہ ہو رہا ہے۔ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے کے نعرے لگانے والے ہوش میں آتے ہی خود قومی ریڈ لائن عبور کرنے کے بعد روتے پیٹتے معافی تلافی ترلے منتوں پر اُتر آئے ہیں۔ سستے نشے اور غلط لیڈر کا یہی نقصان ہوتا ہے۔ اب وہ پارٹی رہنما جن پر خان صاحب بڑا فخر کرتے تھے اور جو اخبارات و میڈیا چینلز پر آگ لگا دیں گے ،خون کی ندیاں بہا دیں گے کے نعرے لگاتے تھے، جب یہی آگ و خون ان کے گھروں کی دہلیز تک آن پہنچا تو ان کی آنکھ کھلی۔ اب قانون سامنے ہے تو سب ڈوبتی کشتی سے چھلانگیں لگانے لگے۔ یہ سب بڑے اور نامور رہنما ہیں۔ سچ کہیں تو پارٹی چھوڑنے والوں کی ریس لگی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کے بڑے بڑے نامور رہنما پارٹی چھوڑ رہے ہیں ان سب کو خان کیا کہیں گے ان پر کونسے الزامات لگائیں گے۔ یہ سب بڑے اور نامور رہنما ہیں۔ کوئی ایک ہوتا تو الزام دیتے یہاں تو سب ہی جا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے خزاں میں درخت کے سوکھے پتے گر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
نواز شریف سے معافی مانگ کر واپس لایا جائے تو ملک ترقی کریگا ۔ جاوید لطیف
واہ یہ خوب کہی ہے جاوید لطیف نے۔ سچ کہتے ہیں شاہ سے زیادہ شاہ پرست خطرناک ہوتے ہیں۔ جگالی کہہ لیں یا نمک حلالی کا کلچر ہمارے ہاں پختہ تر ہو چکا ہے۔ ہم سچ سے زیادہ اپنے ممدوح کا ساتھ دیتے ہیں۔ اب نواز شریف کی شان میں ایسی کونسی گستاخی کی گئی ہے کہ ان کو معافی مانگ کر واپس وطن لایا جائے۔ کیا انہیں خود وطن سے محبت نہیں۔ وطن کے خراب حالات دیکھ کر ان کا دِل بیمار پریشان نہیں ہوتا کہ اُڑ کر وہ پاکستان آئیں یہاں کے حالات بقول جاوید لطیف درست کریں جو روزانہ راگ درباری میں
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے
اپنے چند ہمنوائوں کے ساتھ گاگا کر اپنا حلق خشک کرتے پھر رہے ہیں۔ حالانکہ اس وقت نواز نہیں تو کیا ہوا شہباز شریف کی حکومت تو ہے۔ یہ بھی تو مسلم لیگ (نون) والوں کی اپنی حکومت ہے۔ مگر حالات دیکھیں دگرگوں ہیں۔ لوگ محاورۃً نہیں حقیقتاً بھوکوں مر رہے ہیں۔ صرف پارٹی قائدین ’’آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے‘‘ گا رہے ہیں عوام کو تو اب ’’بلما‘‘ بھی بھول گیا ہے۔ وہ بے چارے روٹی پانی کی فکر میں رہتے ہیں۔ اگر حالات اچھے ہوتے تو وہ بھی نواز شریف کی واپسی کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوتے۔ لیکن اب حالات یکسر مختلف ہیں۔ اب تو میاں نواز شریف کافی زیادہ تندرست ہو چکے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ رخت سفر باندھیں اور وطن واپس آئیں یہاں کے حالات کی اصلاح کریں۔ اس راہ میں چاہے انہیں عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے یا جیلوں کا اس سے نہ ڈریں۔ عوام اگر ان کے ساتھ ہیں تو انہیں معافی تلافی مل سکتی ہے۔ ان سے کوئی معافی مانگ کر انہیں واپس بلانے سے تو رہا۔اس غیر ضروری بحث میں وقت ضائع نہ کیا جائے…
٭٭٭٭٭٭
عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ماہرین
ہوں گے کیا اس وقت تو ہو رہے ہیں۔ درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ موسم بدل رہے ہیں، جہاں گرمی کا زور تھا وہاں برف پڑ رہی ہے، جہاں برف پڑتی تھی وہاں سورج آنکھیں دکھا رہا ہے، جہاں بارش کی بوند نہیں برستی تھی وہاں سیلاب بلاخیز نے تباہی مچائی ہے اور جہاں رم جھم کا موسم رہتا تھا وہاں خشک سالی ڈیرے جمائے بیٹھی ہے۔ یہ تباہی و بربادی کی داستاں ہمارے بس سے باہر ہے اسے ہم روک تو نہیں سکتے مگر اس سے محفوظ رہنے کی راہ تو تلاش کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی یہ تباہی ہماری اپنی ہی مچائی ہوئی ہے۔ ہم نے فطرت اور ماحول کے خلاف من مانے کام کر کے اس کے مخالف کارروائیاں کر کے حالات کو خراب کیا ہے۔ اب اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ اس سارے کام میں سب سے بڑا کردار بڑی عالمی طاقتوں دنیا کی طاقتور معیشتوں کے مالک ممالک کا ہے، جن کے بڑے بڑے صنعتی اداروں کی آلودگی کی وجہ سے ماحول دشمن گیسوں کے بے پناہ اخراج کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ اس پر مصیبت یہ بھی ہے کہ زیادہ نقصان غیر ترقی یافتہ یا کم ترقی یافتہ جنہیں ہم ترقی پذیر ممالک کہہ سکتے ہیں کو ہی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بڑے ممالک جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں ان کے پاس پھر بھی کچھ نہ کچھ وسائل موجود ہیں۔ اس آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے مگر چھوٹے غیر ترقی یافتہ ممالک تباہی کی زد میں ہیں ، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ہمارے ہاں البتہ اس تباہی کی شدت بڑھانے میں ہمارا اپنا ہاتھ بھی ہے۔ ہم آبی ذخائر بناتے نہیں۔ پانی محفوظ نہیں کرتے۔ جنگلات کاٹ رہے سرسبز زرعی اراضی پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا رہے ہیں تو آکسیجن کہاں سے پیدا ہو گی۔ ماحول تباہی سے کیسے بچے گا۔ ہم خود اپنی تباہی کو دعوت دیتے پھر رہے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ورنہ ترقی یافتہ ممالک تو چاند یا مریخ پر جا کر بسیں گے ہم کہاں جائیں گے۔ ہمارے لیے یہ زمین ہی آخری ٹھکانہ ہے جسے ہم جہنم بنا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭