شہدائے پولیس کے نام
اْس سپاہی پہ بھی
جو کہ دن رات خدمت میں مصروف ھے
جس کو اوقاتِ شب کی خبر ہی نہیں
کب ہوئی تھی سحر، کب اندھیرا ہوا
گھر کے افراد ہیں جانے کس حال میں
کب اسے ھے پتا
نظم لکھے کوئی
اْس لہو پر
کہ جس کو شہادت کا رْتبہ ملا
پر نہیں
کْچھ کے نزدیک یہ تو شہادت نہیں
سارے مل کر اسے "جاں بحق" ہی کہو
بیچنی ھے، خبر مدعا یہ رکھو
اس خبر کو جو چاہے وہ عنوان دو
کون پوچھے گا یاں
جس کو ہیرو کرو، چاہے زیرو کرو
مْنحصر تم پہ ھے
ناقدوں کی زباں پر ہی کیوں آبلے
بولتے کیوں نہیں
اس قدر خامشی کا بتائیں سبب
ھے حقیقت یہی
اِس کفن میں کوئی بھی تْمہارا نہیں
نظم لکھے کوئی
اِس شہادت پہ بھی
نظریہء ضرورت کے سائے تلے
جو ھے کچلی گئی جو ھے مسلی گئی
نظم لکھے کوئی
اْس جواں سال پر
جس نے سب کے لیے
آج اپنا گنوا کر یہ ثابت کیا
امن قائم رہے
دیس دائم رہے
دیس دائم رہے
(ماجد جہانگیر مرزا)