سیاسی استحکام کی متقاضی سٹیٹ بنک کی مانیٹری پالیسی رپورٹ
سٹیٹ بنک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافے کا ’’مژدہ‘‘ سنا دیا ہے۔ اس اضافے کے ساتھ اب شرح سود 13.75 فیصد ہو گئی ہے۔ سٹیٹ بنک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق عمومی مہنگائی اپریل میں غیرمتوقع طور پر دو سال کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی جو 13.4 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق مہنگائی دیہی اور شہری علاقوں میں مزید بڑھ کر بالترتیب 10.9 فیصد اور 9.1 فیصد ہو گئی ہے جبکہ زری پالیسی کمیٹی مہنگائی‘ مالی استحکام اور نمو کے وسط مدتی امکانات پر اثرانداز ہونے والی تبدیلیوں کی محتاط نگرانی برقرار رکھے گی۔ اس سلسلہ میں مرکزی بنک کا کہنا ہے کہ مانیٹری اور اقتصادی پالیسی سے طلب کو پائیدار کرنا ہوگا۔ مہنگائی کی توقعات اور بیرونی خدشات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ سٹیٹ بنک نے حکومت کو آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری رکھنے کا مشورہ دیا ہے اور بجلی‘ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی واپس لینے کی تجویز پیش کی ہے۔ قائم مقام گورنر سٹیٹ بنک کے بقول بجلی اور پٹرول پر سبسڈی کا خاتمہ لازمی ہے‘ سبسڈی کب اور کیسے ختم کرنی ہے‘ اس پر مذاکرات جاری ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی ملک کی معیشت کی ترقی اور استحکام کا دارومدار وہاں کی امن و امان اور سیاسی استحکام کی صورتحال پر ہوتا ہے۔ دنیا کے جن ممالک نے اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی منازل تیزی سے طے کی ہیں وہاں سیاسی استحکام اور امن و امان مثالی ہوتا ہے اور آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری وہاں سسٹم کو مستحکم بنائے رکھتی ہے چنانچہ وہاں کے عوام بھی مطمئن اور خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایسی مستحکم معیشت و معاشرت والے زیادہ تر ممالک کا تعلق مغربی و یورپی دنیا سے ہے جو اسی بنیاد پر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہیں۔ بے شک اقوام عالم پر چھائی کورونا کی وباء نے گزشتہ دو اڑھائی سال سے دنیا کے بیشتر ممالک میں اقتصادی ترقی کا پہیہ جامد کر رکھا ہے اور ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں بھی اسکی لپیٹ میں آگئی ہیں تاہم وہ اقتصادی اور سیاسی استحکام کی بنیاد پر کورونا کے درپیش چیلنج سے عہدہ برأ ہونے میں کامیاب ہوئے اور وہ آج بھی اپنی مستحکم معیشت کی بدولت کم وسائل والے ممالک کی مالی معاونت کی پوزیشن میں ہیں اور ’’گلوبل ویلج‘‘ میں موجود عالمی برادری کے کورونا سے سخت متاثر ہونے والے طبقات کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل بنا رہے ہیں۔
ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہمیں کبھی سیاسی استحکام کی شکل دیکھنا ہی نصیب نہیں ہوا اور قیام پاکستان سے اب تک اقتدار کی میوزیکل چیئر پر چھینا جھپٹی اور چور دروازوں سے اقتدار تک رسائی کے مناظر ہی بنتے نظر آتے رہے ہیں۔ بانیانِ پاکستان قائد و اقبال نے تو برصغیر کے مسلمانوں کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے سے ہمکنار کرنے کے جذبے کے تحت پرامن جمہوری جدوجہد سے تخلیق پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا تھا اور ہماری منزل بھی اسلامی‘ فلاحی جمہوری پاکستان ہی ہے جس کی جانب ہم شروع دن سے گامزن ہوجاتے تو آج ہمارا شمار بھی مستحکم معیشتوں والے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہوتا مگر ہمارا ایک جانب تو شروع دن سے ہی مکار اور متعصب دشمن بھارت سے سامنا رہا اور پھر ہمیں سیاسی قیادتیں بھی ایسی میسر آئیں جن کا مطمح ِ نظر ہی اپنے مفادادت کے حصول و تحفظ کیلئے اقتدار کا حصول تھا۔ ان مفاد پرستوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اس وطن عزیز کو سیاسی اور اقتصادی استحکام سے محروم رکھا اور ماورائے آئین اقدامات والی غیرجمہوری حکمرانیوں کے راستے نکالے۔ ملکی معیشت مستحکم نہ ہونے کے باعث ہی حکمران اشرافیہ طبقات کو اس وطن عزیز کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنسانے کا موقع ملا جس کے آسیب کے سائے نے پھیلتے پھیلتے آج ہماری معیشت ہی نہیں‘ ہمارے حکمران طبقات اور عوام پر بھی کاٹھی ڈالی ہوئی ہے جس کی ہر کڑی شرط ہماری حکومتوں کو بادل نخواستہ قبول کرتے ہوئے عوام کو مہنگائی کے عفریت کے آگے ڈالنا اور انہیں عملاً زندہ درگور کرنا ہوتا ہے۔
گزشتہ 75 سال سے جاری اس گھن چکر نے ملک کی معیشت کی بنیادیں بھی مضبوط نہیں ہونے دیں اور قومی آزادی و خودمختاری کی رمق بھی برقرار نہیں رہنے دی۔ اگر ہمیں بانیان پاکستان قائد و اقبال کی امنگوں اور آدرشوں کے مطابق سیاسی استحکام نصیب ہو جاتا تو خوددارانہ اور آبرومندانہ قومی‘ اقتصادی پالیسیوں کے نتیجہ میں ملکی معیشت بھی مستحکم ہو جاتی اور ہمیں عالمی مالیاتی اداروں سے انکی کڑی شرائط پر قرضوں کی بھیک نہ مانگنا پڑتی۔ مگر ہماری سیاست و معیشت میں موجود مفاد پرست طبقات نے ہماری معیشت و معاشرت کی لٹیا ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور سب سے زیادہ افسوسناک یہ صورتحال ہے کہ ہماری قومی سیاسی قیادتوں کو ملکی معیشت اور قومی سیاست کے ساتھ یہ سب کھلواڑ کرنے کے باوجود آج بھی احساس زیاں نہیں ہو پایا اور وہ آج بھی ملک کی سلامتی کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے بے نیاز ہو کر اپنے اپنے اقتدار کیلئے چھینا جھپٹی کا ماحول گرماتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ اڑھائی تین ماہ سے اس ارض وطن پر حکمران اشرافیہ اور مقتدر طبقات کی جانب سے آئین و قانون کی عملداری کو گھسیٹتے‘ رگیدتے ہوئے جس طرح اس وطن عزیز کو جنگل کے معاشرے کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ملک میں خانہ جنگی کا ماحول بنایا جارہا ہے‘ اسکی بنیاد پر تو مستقبل میں بھی قومی معیشت کے استحکام کا تصور ناپید رہے گا۔ ہمارے سیاسی عدم استحکام کی بدولت ہی ہماری معیشت کو بدترین کساد بازاری کا سامنا ہوا ہے اور سٹاک مارکیٹ آئے روز کریش کرتی نظر آتی ہے جبکہ اس ماحول میں ناجائز منافع خور مافیاز کو بھی باہم گٹھ جوڑ کرکے مصنوعی قلت پیدا کرنے اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ لادنے کا موقع ملتا ہے۔
پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں اسکی خراب اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کے نتیجہ میں ویسے ہی مہنگائی بے لگام بنی رہی ہے جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے نتیجہ میں اٹھنے والے مہنگائی کے سونامیوں نے عوام کو سکھ کا سانس لینے کا بھی موقع فراہم نہیں کیا۔ ان پالیسیوں کے ردعمل میں ہی پی ٹی آئی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا جس کے بعد قوم کو توقع تھی کہ نئی مخلوط حکومت قومی معیشت کو سنبھالنے اور عوام کی بدحالی ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیگی جس کیلئے نئے حکمرانوں کی جانب سے دعوے بھی کئے جاتے رہے مگر اس حکومت نے معیشت کو تو کیا سنبھالنا‘ اسکے اپنے پائوں کے نیچے سے اقتدار کا قالین پل پل سرکتا نظر آتا ہے اور حکمران جماعتوں کی قیادتیں خود گومگو کا شکار ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط کی بنیاد پر عوام کیلئے مزید مہنگائی کا باعث بننے والے سخت فیصلے کریں یا اقتدار چھوڑ کر نئے انتخابات کی طرف چلے جائیں۔
حکومتی اتحادیوں نے اگرچہ گزشتہ روز باہمی مشاورت کے بعد اسمبلی کی باقیماندہ مدت پوری کرنے کا اعلان کیا ہے اور حکومت کیخلاف پبلک جلسوں‘ لانگ مارچ اور دھرنے کی شکل میں صف آراء پی ٹی آئی کا فوری انتخابات کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے تاہم ملک پر طاری غیریقینی اور سیاسی عدم استحکام کی فضا میں قومی معیشت کا استحکام بھی راندۂ درگاہ بنا نظر آتا ہے جس کے واضح اشارے سٹیٹ بنک کی جاری کردہ مانیٹری پالیسی میں موجود ہیں۔ اس صورتحال میں ملک کو سب سے پہلے سیاسی استحکام سے ہمکنار کرنا ضروری ہے۔ اگر قومی سیاسی قیادتوں اور دوسرے متعلقین نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ہماری سیاست اور معیشت و معاشرت سمیت سب کچھ ڈوب جانے کا اندیشہ ہے۔