بدھ ، 23 شوال 1443ھ‘ 25 مئی 2022ء
چیف جسٹس عمر عطا بندیال دنیا کی 100 بااثر شخصیات میں شامل
یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ اب عالمی سطح پر بھی لوگوں کو پاکستانی عدلیہ کے بااثر اور طاقتور ہونے کا اندازہ ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ امریکہ کے موقر ترین جریدے ٹائم میگزین نے 2022 ء کی اب تک جن باثر اثر شخصیات کی تفصیل یا فہرست شائع کی ہے۔ اس میں ہمارے چیف جسٹس کا نام پاکستان ہی نہیں دنیا کے ان سو افراد میں شامل ہے جنہیں بااثر کہا جاتا ہے۔ انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ٹائم میگزین میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے لکھا ہے کہ ’’یہ نرم مزاج چیف جسٹس ملک میں بڑھتا سیاسی درجہ حرارت کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہے۔‘‘ کہا جاتا ہے جج خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ یہ بات حقیقت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر صادق آتی ہے۔ تلخ سے تلخ باتیں جو عدلیہ کے حوالے سے کی جاتی ہیں ان کے جواب میں یا تو خاموش رہتے ہیں یا مختصر جملہ میں مدعا بیان کر کے سب کو لاجواب کر دیتے ہیں۔ پاکستانی عدلیہ جن حالات میں کام کر رہی ہے یا کرتی ہے اس سے سب واقف ہیں۔ ان نامساعد حالات میں بھی کوئی ڈٹ کر کام کرے تو بقول جوش ملیح آبادی :
’’ایسے میں جو ثبات دکھائے وہ مرد ہے ‘‘
تو جناب آج ہماری عدلیہ کی جو عزت افزائی ہو رہی ہے اسی پر صاد کرتے ہیں۔ کل کیا ہو گا وہ اوپر والا جانتا ہے۔ سو اسی پر چھوڑتے ہیں۔
٭٭٭٭
ملک میں کوئی غدار ہے نہ میر جعفر یا میر صادق ۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ
ہماری سیاست کا ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ یہاں ہر سیاسی جماعت یا حکومت اپنی مخالف جماعت یا اپوزیشن کو غدار قرار دینے میں رتی بھر تامل نہیں کرتی۔ یوں اگر پچھتر سالہ سیاسی تاریخ کا حساب لگایا جائے تو ہماری تاریخ کسی اور معاملے میں ہو یا نہ ہو غداروں کے معاملے میں خودکفیل ملے گی۔ اگر ان کے تذکرے لکھے جائیں تو پوری ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ خدا جانے ا یک دوسرے کو میر جعفر یا میر صادق کہہ کر غدار قرار دینے والی یہ فیکٹریاں کب بند ہوں گی۔ قیام پاکستان کے بعد کی وہ نسل گزر چکی ہے جس نے قیام پاکستان کی حمایت یا مخالفت کرنے والوں کو دیکھا یا سنا۔ ملک بن گیا تو جو لوگ پاکستان آئے وہ پاکستانی بن گئے۔ مخالفت ان کا ماضی تھا جو دفن ہو چکا ۔ پھر ان میں سے بھی تقریباً تمام لوگ گزر چکے ہیں۔ اب جو دوسری تیسری نسل پاکستان میں رہتی ہے وہ سب محب وطن ہیں۔ بلوچستان ، سندھ، خیبر پی کے پنجاب اور گلگت بلتستان میں آباد و شاد سب مسلمان اور بھائی ہیں۔ صرف ذاتی پسند و ناپسند کی وجہ سے کسی کو غدار کہنے کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ ورنہ جو مٹھی بھر لوگ نفرت کا زہر پھیلا رہے ہیں وہ نہایت کامیابی سے یہ زہر معصوم ذہنوں میں بھرتے رہیں گے۔ اگر کسی جگہ کسی کو کوئی تکلیف ہے یا مسائل درپیش ہیں وہ ملکی آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے مسائل کے لیے آواز بلند کرے۔ غداری یا حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جو خوبصورت ریمارکس دئیے ہیں ان پر غور کرنا ضروری ہے۔
٭٭٭٭
وزیر خارجہ بلاول کے بیرون ملک دورے جاری امریکہ اور چین کے بعد سوئٹزر لینڈ روانہ
نوجوان پاکستانی وزیر خارجہ بلاول جس تیزی کے ساتھ ایک ملک سے آ کر دوسرے ملک دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ اس سے ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کا غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ ٹوٹ سکتا ہے۔ بھٹو کے بڑی تیزی کے ساتھ ملکی و غیر ملکی دوروں پر اس وقت کے درویش عوامی شاعر استاد دامن نے جو شعر کہے تھے ان کو تھوڑی ترمیم کے ساتھ بلاول کے موجودہ دوروں پر یوں کہا جا سکتا ہے۔
کدی امریکہ جا ریا ایں کدی چین جا ریا ایں
کی کری جا ریا ایں کی کری جا ریا ایں
ابھی امریکہ سے آئے ہی تھے کہ چین چلے گئے وہاں سے آئے تو اب سوئٹزرلینڈ چلے گئے۔ چند دن بھی ملک میں رہنا نصیب نہیں ہو رہا۔ جہاں پل دو پل میں حالات بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ مگر بلاول جی اِدھر توجہ دینے سے زیادہ بیرون ملک اپنا امیج بنانے کے چکروں میں پے درپے دورے کر رہے ہیں۔ کیا معلوم انہیں دوبارہ ایسا موقع ملے یا نہ ملے اس لیے وہ اس دستیاب موقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دنیا کو بلاول کی شکل میں ایک نرم خو گرم گفتار پاکستان کا قدرے سافٹ چہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وہ نوجوان ہونے کے ناطے نت نئے تجربات اور علوم کی بدولت وہ جدید سیاسی رحجانات کو محسوس کرتے ہوئے عالمی سطح پر پاکستان کو ایک پرامن اور ترقی کی راہ پر گامزن ملک اور پاکستانیوں کو پرامن عوام کے طور پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں اس طرف خاص طور پر توجہ دینا ہو گی۔
٭٭٭٭
عمران خان کا صدر بازار پشاور کا دورہ اور جان کو خطرے کے دعوے
یہ عجب نیرنگیِ سیاست ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کے قائد عمران خان آئے روز ہر جلسے میں میری جان کو خطرہ ہے۔ مجھے مارنے کی سازش ہو رہی ہے۔ بند کمرے میں جنہوں نے سازش کی ہے۔ میں نے ان کے نام لکھ کر ویڈیو ریکارڈ کرا کے محفوظ جگہ رکھ دی ہے۔ اگر مجھے کچھ ہوا تو عوام ان سے حساب لیں جیسے جملے کہتے ہیں۔ اس طرح وہ عوام کو انتقام پر اکسا رہے ہیں اور اپنے گھر والوں کو محفوظ رکھ کر عوام کو ’’چڑھ جا بیٹا سولی پہ رام بھلی کرے گا‘‘ کا درس دے رہے ہیں۔ دوسری طرف خود کو نڈر ثابت کرنے کے لیے عمران خان نے گزشتہ روز پشاور کے صدر بازار کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ان کے گرد سکیورٹی کا زبردست حصار موجود تھا۔ ویسے بھی انہوں نے خود کوخطرہ کا کہہ کر اپنی سکیورٹی انتہائی سخت کروا دی ہے۔ ہر وقت ان کے ساتھ پولیس اور ایف سی کے مسلح درجنوں اہلکار اور نجی سکیورٹی گارڈ موجود ہوتے ہیں۔ اگر خان صاحب اپنے دور حکومت میں یوں بازاروں میں نکل کر آٹے دال اور سبزیوں کی قیمتیں چیک کرتے تو آج انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ نجانے کیوں ہمارے حکمران خواہ طیش میں ہوں یا عیش میں دونوں صورتوں میں خوف خدا سے عاری ہوتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ حکمرانی پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ہے۔ یہ عوام کو ان کے حقوق دینے ان کے مسائل حل کرنے کی مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔
٭٭٭٭