بجٹ : وزیر خزانہ کا آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن نہ لینے کا فیصلہ

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے امید ظاہر کی ہے کہ جون تک ایف اے ٹی ایف (فیٹف) کی گرے لسٹ سے نکل جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ جون کے اوائل میں ہی وفاقی بجٹ پیش کیا جائیگا، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگے گا۔ سبسڈیز میں کمی لا رہے ہیں، گردشی قرضے میں کمی لانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ ریونیو بڑھانے کیلئے پروگرامز لے کر آرہے ہیں۔ معیشت کی بحالی کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہ داروں پرٹیکس بڑھانے کی آئی ایم ایف کی تجویزقبول نہیں کی، مہنگائی کم کرنا ترجیح ہے۔ ہم نے مستحکم اور مستقل شرح نمو حاصل کرنی ہے، زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے کسانوں کو قرضے دینا ہونگے، ہم ہر آدمی کو گھر دینا چاہتے ہیں، بجلی کے ٹیرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جارہا، حکومت نے جامع اور پائیدار اقتصادی شرح نمو کے حصول کیلئے برآمدات اور ٹیکس وصولیاں بڑھانے سمیت شارٹ اور لانگ ٹرم پلان تیار کر لیا۔ رواں مالی سال کے دوران معاشی اشاریئے 3.94فیصد کی اقتصادی ترقی ظاہر کر رہے ہیں مگر بد قسمتی سے ان اعداد و شمار کو متنازعہ بنانے کیلئے دیدہ دانستہ کوششیں کی گئیں، جب حکومت اقتدار میں آئی تو ملک کا مالیاتی خسارہ 20 ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ سخت شرائط کے باوجود مجبوراً آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ 2008ء کے مقابلہ میں آئی ایم کی شرائط بھی سخت تھیں لیکن ملک میں معاشی استحکام ضروری تھا اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا۔
ہر سال بجٹ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے بھی ایک آزمائش ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے عوام کو بھرپور ریلیف دینے اور ضمنی بجٹ نہ لانے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ بجٹ کا اعلان ہوتا ہے تو ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ مہنگائی کا طوفان بھی اُمڈتا نظر آتا ہے۔ اس پر ہر دور کی اپوزیشن محض حکومت کو نیچا دکھانے کیلئے خود ساختہ اعداد و شمار کے ذریعے عوام کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہے۔ اِدھر بجٹ کی تیاری شروع ہوتی ہے‘ اُدھر آئی ایم ایف کی شرائط سامنے آنے لگتی ہیں جو کبھی خیر کی نہیں ہوتیں۔ مجبوراً قرض خواہ کی بات قرضدار کو ماننا پڑتی ہے حالانکہ ایسے مالیاتی اداروں کو اپنے قرض اور سود کی واپسی سے غرض ہونی چاہیے مگر وہ ڈکٹیٹ کرتے ہیں کہ ٹیکسوں میں کس طرح اور کتنا اضافہ کرنا ہے۔ انکی ڈکٹیشن پر عمل نہ کرنیوالے ممالک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو آئی ایم ایف سے دور رہنے کی پالیسی اختیار کی گئی مگر پھر حالات نے ایسی کروٹ لی کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا اور حکومت کی طرف سے یہ بھی اعتراف کیا گیا کہ حکومت میں آتے ہی آئی ایم ایف سے رابطہ نہ کر کے غلطی کی گئی۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے رابطہ کر کے قرض کیوں لیا؟ ان وجوہات کی وضاحت آج کے وزیر خزانہ شوکت ترین کی طرف سے ایک بار پھر کی گئی ہے۔
پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے ، ان کا درست استعمال کیا جائے۔ ٹیکس ایمانداری سے اکٹھے کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کی معیشت مضبوط نہ ہو اور ہم قرضوں سے نجات حاصل نہ کر سکیں۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے جس میں نامساعد حالات کے باوجود گندم ، چاول ، گنے اور کپاس کی ضرورت سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔ اس پیداوار میں کسانوں کو ممکنہ سہولیات فراہم کر کے معتدبہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ شوکت ترین کسانوں کو قرض دینے کی پالیسی لا رہے ہیں‘ اسکے ساتھ بجلی کے بلوں میں مزید کمی لانے کی ضرورت ہے۔ بیج اور اصل ادویات کی دستیابی یقینی بنانا ہو گی۔ آج ٹیکسٹائل کے شعبہ میں مثالی بہتری آئی۔ ترسیلات زر میں اطمینان بخش اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی دعوئوں کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے بڑھے ہیں۔ یہ سب معیشت کی مضبوطی کے شواہد ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے ٹیکسوں میں اضافے پر زور دیا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی ٹیکسوں میں اضافے کو آمدن کا آسان ذریعہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ ٹیکس جمع کرنیوالے اداروں کے اہلکار ذمہ داری اور ایمان داری سے کام کریں تو مقررہ اہداف حاصل کرنا قطعی مشکل نہیں۔ مگر مقررہ اہداف مشکل ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔ ٹیکس وصولی کا فول پروف انتظام کر لیا جائے تو ٹیکسوں میں اضافے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے جو معیشت کو دستاویزی شکل دے کر آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے دعویٰ کیا ہے کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگے گا۔ امید ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں گے۔ وہ جس طرح سے کام کر رہے اور معاشی صورتحال میں بہتری آ رہی ہے‘ نئے ٹیکسوں کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے۔
وزیر خزانہ کی طرف سے تنخواہ داروں پر ٹیکس بڑھانے کی آئی ایم ایف کی تجویز کو قبول نہ کرنا جرأت مندانہ اقدام ہے۔ وہ اسکی بے جا ڈکٹیشن کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ عالمی مالیاتی اداروں سے قرض مجبوراً لیا جاتا ہے جس کی انکی شرائط کے مطابق واپسی بھی ہوتی ہے۔ قرض لینے کا مطلب قرض خواہ کے ہاتھوں معیشت کو یرغمال بنوا لینا نہیںہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جائے اور عالمی مالیاتی اداروں سے مکمل نجات حاصل کر لی جائے۔ ایسا ناممکن اس لیے بھی نہیں ہے کہ مشرف دور میں پاکستان قرض فری ملک بن گیا اور آج بھی ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔