ہفتہ ‘ 19 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 25 ؍مئی 2019ء
مودی کوسب سے پہلی مبارک اسرائیلی وزیراعظم نے دی
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے صرف مبارکباد ہی نہیں دی بلکہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ دوستی کو نئی بلندیوں پر لے کرجائیں گے۔ سب سے پہلے تو ہمارے عرب و عجم کے دوستوں کو مبارک ہو کہ بعض کے برادر اور بعض کے قریبی دوست ملک بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی دوبارہ بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ اگلی بات یہ کہ اسرائیلی وزیراعظم کی بے قراری اور بے تابی سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مودی کی جیت کے لیے انتہا پسند ہندوئوں نے مندروں میں اتنی پرارتھنا نہیں کی ہو گی جتنی نیتن یاہو اور اُن کی قوم نے دیوار گریہ سے ’’ٹکریں‘‘ مار مار کر دعائیں کی ہوں گی۔ تیسرا یہ کہ ہمارے دوست بھارت کو برادر ملک قرار دینے اور عرب کرم فرمائوں کو اسرائیل کے خلاف کچھ کہنے یا اقدام کرنے سے پہلے یہ دھیان میں رکھنا ہو گا کہ صہیونی ریاست کے نسل پرست وزیراعظم نے ہندو نسل پرست بھارت کے ساتھ دوستی کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ ذرا پہلی بلندی کے ثمرات دیکھیں کہ جن سے پاکستان، کشمیری اور فلسطینی بہت مستفید ہوئے ہیں کوئی دن نہیں جاتا کہ دو تین کشمیری اور تین چار فلسطینی شہید نہ ہوتے ہوں۔ ہم پاکستانی تو دوستی کی ایک بلندی سے آگاہ ہیں اور وہ ہے چین سے دوستی ۔ ہم نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ چین کا دوست پاکستان کا دوست ہے۔ چنانچہ اگر انتہائی بلندیوں پر پرواز کرتی، بھارت اسرائیل دوستی کی موجودگی میں بھارت سے عرب و عجم کی دوستی کے اسرار و رموز ہماری سمجھ میں نہ آئیں تو ہمیں مطعون نہ کیجئے۔ دراصل یہ نکتہ ہماری گرفت میں آ ہی نہیں رہا۔ بہرکیف دُنیا میں اپنی نوعیت کی اس انوکھی دوستی کو سمجھنے کی بھرپور کوشش جاری رکھیں گے۔
٭٭٭٭
ماضی کی حکومتیں سوئی رہیں عوام لٹتے رہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار
وزیر اعلیٰ نے یہ بات غیر معیاری اور جعلی مصنوعات اور کاسمیٹکس بنانے والوں کے خلاف کریک ڈائون کا جائزہ لیتے ہوئے کہی، بادی النظر میں وزیر اعلیٰ درست کہہ رہے ہیں۔ آمیزش اور جعلسازیوں کی صنعت گزشتہ ادوار میں پھلی پھولی اور جس طرح پھلی پھولی وہ حیران کن ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ دو نمبری کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ لیکن وزیراعلیٰ کا یہ کہنا کہ پچھلے حکمران سوئے رہے، سو فیصد درست نہیں ،کیونکہ سوئے ہوتے تو اُن کی اپنی زنبیلیں خالی ہوتیں اُن کی بھری تجوریاں دیکھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سوتے ہی نہیں تھے۔ اگر اُنہوں نے سو کر وقت گزارا ہوتا تو آج یہ لہر بہر نظر نہ آتی۔ یوں لگتا ہے حکمرانوں اور مافیاز میں ’’پرامن بقائے باہمی‘‘ کا کوئی سمجھوتہ ہو گیا تھاکہ آپ ہماری طرف نہ دیکھیں ہم آپ کی طرف نہیں دیکھیں گے۔ اگر فریقین کے درمیان ایسی کوئی غیر تحریری افہام و تفہیم تھی تو داد دینی پڑتی ہے کہ دونوں نے اپنے اپنے عہدکا پاس کیا۔
اُن کا دور تو گزر گیا اور آپ کو اُن کے ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنی اور اُن کے بچھائے کانٹے پلکوں سے چننے پڑ رہے ہیں۔ مولانا مودودی نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ذکر میں لکھا ہے کہ ’’وہ آئے مسجد کا جھاڑ جھنکار صاف کیا اذان دی اور پھر گھر جا کر سو گئے۔ ‘‘یہ لطیف اشارا اس طرف ہے کہ مولانا آزاد کی ابتدائی تحریروں نے مسلمانان ہند کو خواب غفلت سے جگایا اور جب مسلمان بیدار ہوئے تو اُن کی علمی و دینی قیادت کرنے کی بجائے سیاست میں چلے گئے اور وہ بھی کانگرس میں۔ پس اب آپ عوام کو جگا کر ماضی کے حکمرانوں کی طرح نہ سو جانا۔
٭٭٭٭
بھارت: انتخابات میں ناکامی پر کانگرسی رہنما دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا
آنجہانی رتن سنگھ مدھیہ پردیش کے ایک حلقہ سے کانگرس کے امیدوارتھے، اس کے علاوہ ضلع صدر بھی تھے۔ ایک پولنگ سٹیشن پر بیٹھے گنتی دیکھ رہے تھے کہ جونہی اُنہیں اپنے ہارنے کا علم ہوا دل میں درد اُٹھا اور پرلوک سدھار گئے۔ لالہ رتن سنگھ انتخابات ہارنے سے نہیںمرے بلکہ دھن کے ڈوب جانے سے پران چھوڑ بیٹھے۔ آجکل انتخابات بھارت کے ہوں یا پاکستان کے ، بڑا مہنگا سودا ہے۔ جب اُنہیں پتہ تھا کہ وہ دھن کی بربادی برداشت نہیں کر سکیں گے تو اُنہیں چنائو کے دنگل میں کودنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ انتخابات میں جیتنے کے ساتھ ساتھ ہارنے کے خدشات بھی پیش نظر رکھنے چاہئیں، ان سے توجالندھر کا وہ آزاد امیدوار ہی تگڑے دل کا نکلا جو میڈیا کے سامنے ووٹروں کے آگے ہاتھ جوڑتا رہا، مگر اس کا رونا دھونا کسی کام نہ آیا اور اُسے صرف پانچ ووٹ ملے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے اپنے گھر کے 9 ووٹ تھے مگر اسے گھر والوں نے بھی ووٹ نہیں دئیے۔ دراصل سیاست اور پھر انتخابات بڑے دل گردے کا کام ہے۔ بعض اوقات تجوریوں کا منہ کھولنے کے باوجود ضمانت ضبط ہو جاتی ہے۔ ہارنے والے کو دل کو سہارا دینے کے کئی طریقے ہیں۔ سب سے عام فہم اور پرتاثیر طریقہ تو یہ ہے کہ دھاندلی کا الزام لگا دیا جائے۔ یوں ہارنے کی ذلت کے باوجود تھوڑی بہت آبرو رہ جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭
جاوید ہاشمی نواز شریف سے ملاقات کے لیے موٹر سائیکل پر کوٹ لکھپت جیل پہنچے
اخبارات میں تصویر شائع ہوئی ہے جس میں سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کو موٹرسائیکل پر بیٹھ کر جیل جاتے دکھایا گیا ہے۔ موٹر سائیکل کوئی اور چلا رہا ہے۔ آپ نے اُس کے کندھوں کو ’’جپھا ‘‘ مار رکھا ہے۔ ایک ملنگ نے آپ کو پیچھے سے پکڑ رکھا ہے۔ نواز شریف ان دنوں کوٹ لکھپت جیل میں ہیں۔ یوں تو اُنہیں ملنے کے لیے بے شمار لوگ جاتے ہیں اور اکثر ملاقاتی بڑی بڑی گاڑیوں پر جاتے ہوں گے۔ لیکن اس ہئیت کذائی میں شائد ہی کوئی گیا ہو گا۔ مقدر کی بات ہے کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر جاوید ہاشمی تحریک انصاف کو نہ چھوڑتے تو آج یقیناً ملک کے صدر ہوتے۔ خیر یہ تو نصیب کی بات ہے…؎
نصیب میںجس کے جو لکھا تھا وہ تیری محفل میں کام آیا
کسی کے حصے میں پیاس آئی کسی کے حصے میں جام آیا
کوئی نہیں جانتا کل کیا ہو گا لیکن اگر وہ شجر سے اسی طرح پیوستہ رہے جس طرح اُنہوں نے موٹر سائیکل چلانے والے کو گرفت میں لے رکھا ہے تو ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ وہ شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ نقل و حرکت کررہے ہوں۔ جاوید ہاشمی ایسے باوقار لوگ سیاسی پارٹیوں کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ پارٹی کا سربراہ جوہر شناس اور وفا کا قدر دان ہو، ورنہ یہاں تو بیشتر حالتوں میں ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ …ع
منزل اُنہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے