نظریں شہبازشریف پر
میاں نوازشریف کی نااہلی (ن) لیگ کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے جس کی مشاورت میں یوں بھی اضافہ ہو گیا کہ وہ اس کیلئے ہرگز تیار نہ تھے‘ اور اضطراری کیفیت میں احتجاج کی راہ اختیار کی‘ جو ان کا قطعی ذاتی فیصلہ تھا۔ جبکہ شہبازشریف‘ چودھری نثار اور دیگر اہل بصیرت موقع کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے مقتدر حلقوں کےساتھ سمجھوتے کے حق میں تھے۔ پارٹی کارکنوں کی اکثریت کی سوچ بھی یہی تھی کہ زور آور کے ساتھ تصادم سے بچا جائے جس کا ثبوت یہ کہ احتجاجی قافلہ راولپنڈی سے نکلا تو بہت کم لوگ ہمراہ تھے اور میاں صاحب کو مقامی لیڈروں کی ڈانٹ ڈپٹ کرنا پڑی تھی۔ راقم اس زمانہ سے متعدد (ن) لیگی ارکان پارلیمنٹ کےساتھ رابطہ میں رہاہے۔ تقریباً ہر کوئی میاں صاحب کی احتجاجی حکمت عملی کےخلاف تھا مگر موصوف کا لحاظ اور ہمارا تہذیبی و سیاسی کلچر آڑے آتا رہا اور کسی نے بھی کھل کر بات کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر تباہی موجب ہوگی۔ اگر کسی نے ہمت کی بھی تو موصوف سننے کے موڈ میں نہیں تھے بلکہ کیفیت کچھ ایسی کہ خلاف منشابات کرنے والوںکو جناب اپنا مخالف خیال کرتے تھے کہ وہ ان سے اقتدار چھیننے والوں کا ساتھی ہے۔ چودھری نثار کے علاوہ شہبازشریف نے بھی دو ایک بار سمجھانے کی کوشش کی کہ پارٹی رینکس میں کنفیوژن پھیل رہا ہے۔ اگر ہم اس سراب سے نہ نکلے تو جماعت اور ہماری سیاست ختم ہو جائیگی۔ ہمیں ایک معتدل بیانیہ کی ضرورت ہے اور مقتدر حلقوں کو مسلسل سرخ کپڑا دکھانا خودکشی کے مترادف ہوگا مگر ادھر ”زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد“ والی کیفیت رہی۔پارٹی کی سربراہی کا سوال اٹھا تو شہبازشریف کا نام انتہائی مجبوری کی حالت میں سامنے آیا۔ ورنہ نگاہ التفات میں مریم اور محترمہ کلثوم نواز صاحبہ پر تھی۔ اور ستم برستم یہ کہ شہبازشریف کو صدر تو بنا دیا گیا مگر پارٹی معاملات کے حوالے سے اعتماد و اختیار سے محروم رکھا اور نوازشریف صاحب نے پارٹی رہبر کا لبادہ اوڑھ کر سیاست اور پارٹی معاملات پر اپنی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کر لی۔ موصوف بدستور خطرناک شاٹس کھیل رہے ہیں اور ”بہت ہو چکا جناب“ کی سدا پر کان دھرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں۔ اندرون خانہ کی خبر رکھنے والے دہائی دیتے ہیں کہ یہ تخت نشینی کی جنگ ہے۔ جس تخت کے مزے میاں صاحب نے 35 برس تک لئے ہیں۔ اب کسی اور کے قبضے میں جانا برداشت نہیں۔
ایک وقت تھا کہ حمزہ شریف‘ جناب نوازشریف کی آنکھ کا تارا تھا اور اسے اپنا جانشین بنا رکھا تھا۔ جس نے نست و برخاست ادب آداب‘ پہناووں‘ حتٰی کہ تقریر میں بھی تایا جان کے انداز کو اپنایا۔ مریم بی بی ان دنوں خالص گھریلو خاتون تھیں اور سیاست سے بڑی حد تک لاتعلق۔ پھر نہ جانے کیا ہوا؟ حالات نے تیزی سے پلٹا کھایا۔ صاحبزادی یکایک منظرعام پر آگئیں اور عملی طورپر میاں صاحب کی جانشینی کے مقام پر فائز ہو گئیں۔ جہانبانی کی تربیت بھی شروع ہو گئی اور پرائم منسٹر ہاﺅس کے زیریں چلنے والے دو ایک پراجکٹس کی سربراہ بھی قرار پائیں۔ یوں پس پردہ تانے بانے بنے جاتے رہے اور حمزہ شریف بتدریج پس منظر میں جاتے گئے۔ پھر NA-120 کے انتخابات نے سارا بھرم کھول دیا۔ ماں کو نشست جتوانے کیلئے مریم بی بی تن تنہا لاہور کی گلیوں میں ماری ماری پھر رہی تھیں اور شریف خاندان کے کسی اور فرد کا دور دو تک نشان نہ تھا۔ اور پھر کسی حکمت عملی کے تحت حمزہ صاحب بھی یکایک منظر عام پر آگئے اور انتخابی مہم میں بڑی حد تک حصہ ڈالا۔ انتخاب جیتنے کی خوشی میں ہونے والی ایک تقریب میں نوازشریف صاحب نے حمزہ کے علاوہ آدھے لاہور کا شکریہ ادا کیا تھا اور حمزہ کا نام ان کی زبان پر اس وقت آیا جب ہال نے حمزہ حمزہ کی پکار سے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی کو ایک برس ہونے کو آیا اور اس دوران موصوف نے جس انداز میں اپنی بیٹی کیلئے مہم چلائی اس کی مثال شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ ہر تقریر کا لب لباب کم و بیش یہی ہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ غلط طورپر نکالا گیا لہٰذا پھر سے وزیراعظم کی گدی پر بٹھایا جانا چاہئے اور اگر یہ کسی طورپر بھی ممکن نہ ہو‘ تو دختر نیک اختر اس کی سب سے زیادہ مستحق ہے۔ صاحبزادوں پر نظر التفات اس لئے نہیں کہ دونوں ملک سے باہر اور وہیں کے شہری۔ انکی سب جائیدادیں‘ کاروبار باہر اور پاکستان میں سٹیکس نہ ہونے کے برابر‘تو پھر جناب شہبازشریف کی تین عشروں کی سیاسی کمائی کیا ہے؟ بڑے بھائی کی نظر میں یقینا صفر۔ بے شک ذاتی اور خاندانی رشتوںکو انہوں نے احسن طریقے سے نبھا دیا۔ جہاں ضرورت پڑی آگے بڑھ کر قربانی دیدی۔ اس صلہ رحمی کا اجر وہ اللہ سے پائیں گے۔ مگر تاریخ نے بھی ایک اہم ذمہ داری ان پر ڈال دی ہے جیسے تیسے وہ پارٹی کے صدر ہیں۔ بڑے بھائی کے حالیہ متنازعہ بیان کے بعد انہیں ایک لیڈر کا رول ادا کرنا ہے۔ بھائی کو ہذیانی کیفیت سے باہرنکالنے کےساتھ ساتھ انہیں پارٹی کو بھی سنبھالنا ہے اور مزید شکست و ریخت سے بچانا ہے۔ قومی جماعتیں شب بھر میں نہیں بنا کرتیں۔ اس اس کیلئے عشروں کی محنت درکار ہوتی ہے اور (ن) لیگ کا تن آور و توانا رہنا تو عین قومی مفاد میں ہے۔ بس اب شہباز صاحب‘ قوم آپ کو دیکھ رہی ہے۔