جمعة المبارک‘ 9 رمضان المبارک ‘ 1439 ھ ‘ 25 مئی 2018ء
عمران خان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت
دیر آید درست آید کے مصداق آج تو قومی اسمبلی کیلئے بڑی خوشی کا دن ہے کہ اس کا لاڈلا ممبر جو ہر وقت کھیلن کو چاند مانگتا ہے آج اس کے اجلاس میں شریک ہوا۔ ایک طرف اگرچہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کو توہین سمجھتے ہیں۔ مگر اس معزز پارلیمنٹ کی ممبری بھی نہیں چھوڑتے۔ اس معزز پارلیمنٹ کو لعنت ملامت بھی کرتے ہیں۔ آج عرصہ دراز بعد اسی لعنتی اسمبلی میں وہ بڑی شان سے داخل ہوئے جہاں 5برسوں میں شاید 5دفعہ ہی آئے ہوں۔ آج حکومت قومی اسمبلی میں فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کا بل پیش کیا جو منظور بھی ہو گیا۔ یوں اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا طرہ اپنے سر سجانے کے شوق میں خان صاحب بھی کشاں کشاں اسمبلی کی طرف چلے آئے۔ اب معلوم نہیں سپیکر صاحب اسمبلی کے دروازے پر تیل ڈالنے کا حکم دیا یا نہیں ان کا تو ریڈ کارپٹ بچھا کر سواگت کرنا چاہئے تھا۔ طرفہ تماشا ہے کہ اب اسمبلی ارکان اسمبلی میں آتے بھی اپنے فائدے کی نیت سے میں۔ اگر آج خان صاحب نہ بھی آتے تب بھی تو فاٹا کا خیبر پی کے سے انضمام ہونا ہی تھا مگر عوام کے سامنے نمبر بھی تو ٹانگنے ہوتے ہیں۔ سو آج جس ا سمبلی کی مذمت کو انہوں نے ایمان بنا رکھا تھا۔ آج وہ اسی میں تشریف فرما بھی ہیں اور تقریر بھی کی۔
٭........٭........٭
مکھی سے پریشان شہزادہ ہیری تقریر بھول گئے
یہاں تو عام انسان اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا۔ وہ تو پھر شہزادے ہیں۔ ویسے یہ مکھی بڑی گستاخ واقع ہوئی ہے جس نے عین تقریر کرتے وقت شہزادے کو ڈسٹرب کرنا شروع کر دیا اور اس کی گستاخیاں اس حد تک چلی گئیں کہ شہزادہ تقریر بھول بیٹھا۔ اس معاملے سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ مکھی سب کو تنگ کرتی ہے وہ نہ شہزادہ دیکھتی ہے نا فقیر، کہتے ہیں کسی عباسی بادشاہ کو دربار میں اسی طرح مکھی بار بار تنگ کر رہی تھی۔ ناک پہ آکر بیٹھ رہی تھی بادشاہ اسے اڑاتے اڑاتے تھک گیا مگر وہ مکھی باز نہ آئی تو تنگ آکر اس نے اپنے دربار مسخرے یا بھانڈے سے جسکا درجہ شاید اس وجہ وزیر مخولیات کا ہوتا ہوگا پوچھا کہ خداوندعالم نے یہ مکھی پیدا ہی کیوں کی ہے۔ وہ وزیر مخولیات بھی حاضر جواب دانا تھا مکھی کے ہاتھوں بادشاہ کی پریشانی کا نظارہ کر چکا تھا اور بادشاہ کے قہر و جلال سے بھی آگاہ تھا۔ اس نے جھٹ کہا عالم پناہ یہ مکھی خداوند عالم نے بڑے بڑے مغرور کا غرور توڑنے کیلئے پیدا کی ہے یعنی بڑے سے بڑا طاقتور ترین بادشاہ بھی اس کو ناک سے ہٹانے پر قدرت نہیں رکھتا۔ سو اس کا نظارہ شہزادہ ہیری کی تقریر میں ایک معمولی سی مکھی کی مداخلت نے ایک بار پھر کرا دیا۔ شہزادے نے مکھی کے ہاتھوں زچ ہو کر کہہ ہی دیا کہ اس کمبخت مکھی کی وجہ سے وہ تقریر نہیں کر پا رہے جس پر سامعین کی بھی ہنسی چھوٹ گئی....
٭........٭........٭
چین میں قرضہ خوروں کو شرم دلانے کیلئے ان کی تصاویر سینماﺅں میں دکھائی جائیں گی
یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ اس طرح کم از کم لوگوں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچنے کیلئے قرضہ لینے والے اب کم از کم قرضہ واپس کرنا تو شروع کردیں گے۔ یوں حکومت کو بیٹھے بٹھائے بنا کسی بڑی اشتہاری مہم کے ریکوری شروع ہو جائے گی۔ کہتے ہیں اچھی بات جہاں سے ملے لے لینی چاہئے۔ چین سے اگر ہم ترقی کے مشورے لے سکتے ہیں، امداد لے سکتے ہیں تو یہ اچھا آئیڈیا کیوں نہیں لے سکتے کہ ہم بھی ٹیلی ویژن پر سینما گھروں میں پبلک مقامات پر قرضہ واپس نہ کرنے والوں کی تصاویر دیدار عام کیلئے لگا دیں تو ہو سکتا ہے کہ لکڑ ہضم پتھر ہضم قسم کے یہ قرضہ ہضم کرنے والے بھی شرم سے پانی پانی ہو کر قومی خزانے سے لیا گیا قرضہ واپس کرنا شروع ہو جائیں۔ بس فرق صرف اتنا ہو ہمارے اور چین کے اس قرضہ وصولی مہم میں کہ ہمارے ہاں جن ارب پتی مفلوک الحال قرضہ داروں نے دھونس، دباﺅ اور سفارش سے قرضہ معاف کرائے ہیں۔ ان کی تصاویر سب سے نمایاں کرکے لگائی جائیں اور ان سے معاف شدہ قرضہ بھی بمعہ سود وصول کیا جائے کیونکہ یہ بڑے ڈرامے باز مفلوک الحال ارب پتی ہیں جو پچھلا اربوں کا قرضہ معاف کروا کر پھر نیا قرضہ لے لیتے ہیں۔ خدا جانے ان کے پاس ایسا کونسا جادو ہے کہ بنک اور قرضہ دینے والے دیگر ادارے اندھے ہو جاتے ہیں اور انہیں ایک بار پھر قرضہ جاری کردیتے ہیں۔....
٭........٭........٭
سندھ میں گرمی کی لہر جاری، حکومت نے گرمی سے مرنے کادعویٰ مسترد کردیا
سندھ میں سورج ایک بار پھرقہر برسا رہا ہے، سمندری ہوائیں بھی روٹھ گئی ہیں۔ درجہ حرارت تو سیاسی درجہ حرارت سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے مگر کیا مجال ہے جو سندھ حکومت نے اس موسمی حملے سے بچاﺅ کے لئے ذرا بھر بھی حفاظتی اقدامات کئے ہوں۔ بس ہیٹ ویو سے بچنے کے اعلانات نشر کئے گئے اس کے بعد خاموشی، ایدھی والے بتا رہے ہیں کہ 65افراد ہیٹ سٹروک سے ہلاک ہوئے، حکومت اس پہ بھی یقین کرنے کو تیار نہیں اسے جھوٹ قرار دے رہی ہے۔ ایک تو روزے اوپر سے گرمی کی لہر، لگتا ہے پورا سندھ صحرا بن گیا ہے جہاں قدم قدم پر آگ برس رہی ہے۔ صرف کراچی ہی نہیں باقی شہروں میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں لوگ پانی اور بجلی کے علاوہ بنیادی صحت کی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ ٹھنڈے کمروں میں رہنے والے ان مرغی کے ڈربوں رہنے والے گھاس، پھونس کی چھونپڑیوں میں رہنے والوں کا عذاب کیا سمجھیں ۔ جہاں دو وقت روٹی کمانے کیلئے دن بھر مشقت کرنی پڑتی ہو۔ وہاں احتیاط کیا ہو سکتی ہے۔ سونا تو یہ چاہئے کہ حکومت کی طرف سے ہر علاقے میں فوری طبی امداد کا مرکز ہو جہاں ادویات علاج کی سہولت دستیاب ہو۔ سندھ میں ترقی اور خدمت کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس کیا اس کا جواب ہے کہ سندھ میں زندگی مہنگی اور موت سستی کیوں ہے دس برس حکومت کرنے والے اس صوبے میں اور کچھ نہیں اگر شجر کاری کا کرتے تو یہ موسمی تبدیلی اتنی خطرناک نہ ہوتی، مگر جو لوگ آبی ضرورت پوری کرنے کیلئے کالا باغ ڈیم بنانے پر تیار نہیں وہ باغات اور جنگلات کہاں سے لگائیں گے۔ اس کے لئے پانی کہاں سے لائیں گے۔ انہیں سندھ کا بنجر بننا منظور ہے۔ کالا باغ ڈیم بنانا قبول نہیں....۔
٭........٭........٭