مودی اسرائیل نواز، عرب ممالک میں تشویش، پاکستان سے متعلق ان کا مؤقف سخت رہا: بی بی سی
لندن (نیٹ نیوز/ بی بی سی) مودی کی جیت کی گونج دنیا بھر میں سنائی دی ہے۔ عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ کے اخبار ہوں یا ٹی وی چینل مسلم دنیا کے ممالک کی نظر اس وقت مودی پر ہے۔ بی بی سی کے مطابق مودی پر پاکستان سے آنے والے ردعمل کا کافی تجزیہ ہوا ہے ایسے میں یہ جاننا دلچسپ ہے کہ باقی مسلم اکثریت والے ممالک میں مودی کے بارے میں کیسی رائے ہے۔ بی بی سی فارسی سروس کے امید پرسانی زاد نے کہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ مودی کی تصویر ہندو رہنما کی رہی ہے۔ ایران کے میڈیا میں بھی یہی تصویر ابھر کر آئی ہے ۔ بی بی سی عربی سروس کی دینا دمرداش کے مطابق عرب ممالک میں مودی کی مشکوک تصویر ہے۔ دینا کے مطابق گجرات فسادات سے مودی کا نام وابستہ رہا ہے اس لئے لوگوں کے دل میں شک ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد ان کا کام کرنے کا انداز کیسا ہو گا، مسلمانوں کو لے کر ان کا رخ کیسا ہوگا۔ جیت کے بعد تقریر میں مودی نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ہے لیکن مودی کی اسرائیل نواز پالیسی کے سبب عرب کے لوگوں میں تشویش بھی ہے۔ قطر کے وزیراعظم نے مودی کو جیت کی مبارک باد دی ہے جس کے جواب میں مودی نے ٹویٹ بھی کیا۔ جہاں تک مودی کی تصویر کی بات ہے تو ایک شخص کی وجہ سے عرب ممالک سے رشتے خراب ہونے والے نہیں۔ عرب اور مشرق وسطیٰ میں ممالک کے ساتھ بھارت کے تاریخی رشتے رہے ہیں۔ بھارت کی پالیسی صاف ہے۔ وہ عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیتا جہاں ضرورت ہو وہاں حمایت بھی کرتا ہے جیسے فلسطینیوں کے مسئلے پر وہ حمایت کرتا آیا ہے۔ ایک طرف جہاں بھارت کے ایران جیسے ملک کے ساتھ اہم تجارتی اور ثقافتی رشتے ہیں تو نریندر مودی کو اسرائیل کے بھی نزدیک سمجھا جاتا رہا ہے۔ 2002، 2003 میں بی جے پی کی حکومت میں ایریل شیرون وہ پہلے اسرائیلی لیڈر تھے جو بھارت آئے۔گجرات میں اسرائیل نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اسرائیلی میڈیا میں مودی کی جیت کو لے کر زبردست جوش ہے۔ ایک اسرائیلی اخبار کی شہ سرخی تھی ’کیا مودی اسرائیل کے لئے سب سے بہترین وزیراعظم ہوں گے؟ وہیں انٹرنیشنل بزنس ٹائمز نے کچھ وقت پہلے لکھا تھا، ’مودی جنوبی ایشیا میں اسرائیل کے بہترین دوست ہوں گے۔ علاوہ ازیں برصغیر پاکستان و ہند کی تقسیم کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ملکوں میں سے کسی ایک کے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں دوسرا ہم منصب شریک ہوگا ۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی میں کمی کیلئے سفارتی و سیاسی حلقوںکا کہنا ہے کہ دوطرفہ بات چیت کا واضح روڈ میپ ضروری ہے ۔ دونوں حکومتوں کو اس حوالے سے پیشرفت کیلئے کسی تاخیر کے بغیر اقدامات کرنا ہوں گے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی رابطوں کے نتیجے میں غلط فہمیوں کے ازالے میں بھی مدد ملے گی ۔ مضبوط سیاسی رابطے دیرینہ تنازعات کے پرامن حل کیلئے سازگار فضا پیدا کر سکتے ہیں ۔ ان تجزیہ کاروں نے پس پردہ کوششوں کی بھی حمایت کی اور اس بات پر زور دیا کہ کشیدگی کا سبب بننے والے حالات میں بہتری کیلئے دوطرفہ اقدامات کرنا ہوں گے ۔اعتماد کی بحالی کیلئے سیاسی قیادت اقدامات کر سکتی ہے ۔سیاسی قیادت کو اپنے اداروں کو بھی اپنا ہمنوا رکھنا ہو گا ۔ سفارتی و سیاسی حلقوں کے مطابق دیرینہ تنازعات مسئلہ کشمیر ، سیاچن ، سرکریک ، سرحد پر بھارتی تجاوزات ، پانی اور دیگر مسائل کے حوالے سے بات چیت کیلئے مرحلہ وار آگے بڑھنے کے راستے تلاش کرنے ہوں گے ۔ واضح روڈ میپ ہی دونوں ممالک کو قریب لا سکتا ہے جس کے خطے کی سلامتی ، استحکام ، اقتصادی ترقی پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے ۔ بی بی سی کے مطابق مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو تقریب میں شرکت کی دعوت دینا خاصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ نریندر مودی کا پاکستان کے بارے میں موقف سخت رہا ہے، وہ متعدد بار پاکستان پر تنقید کرچکے ہیں۔