’پاکستان پر ثقافتی حملے!
بھارت میں کانگرس کی سربراہ سونیا گاندھی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’ہمیں پاکستان کو جغرافیائی طور پر فتح کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم نے پاکستان کو ’’ثقافتی طور پر فتح کر لیا ہے‘‘ بغور جائزہ لیا جائے تو سونیا گاندھی کے یہ الفاظ بڑ نہیں ہیں اور اگر پورا سچ نہیں تو آدھا سچ ضرور ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان بھارت کی ثقافتی فتح کا ذریعہ بھارتی چینلوں سے چلنے والے بھارتی ڈرامے اور دیگر پروگرامز ہیں بے شک پاکستان کی نئی اور نوجوان نسل پر ان کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا مختلف اوقات میں خود مجھ سے ایک سو سے زائد افراد نے تشویش کا اظہار کیا کہ چھوٹے بچے بات چیت میں ہندی الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں بھارت کی پاکستان پر ثقافتی فتح کا بہت خطرناک ہتھیار خود پاکستان کے ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا ہے جو پاکستان پر بھارت کی خوفناک ثقافتی یلغار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو پاکستان میں اسلامی روایات، اقدار اور تہذیب پر ثقافتی کلہاڑے چلا رہے ہیں اس مکروہ کردار کی ایک جھلک یہ ہے کہ پاکستان میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ویلنٹائن ڈے کس بلا کا نام ہے ایک بڑے اخبار نے لڑکوں اور لڑکیوں کے جعلی پیغامات پر مبنی پورے صفحے کا رنگین ایڈیشن شائع کیا اس طرح کے پیغامات خود تیار کئے گئے مثلاً پیارے سلیم میں تم سے سچی محبت کرتی ہوں۔ شازیہ (ساہیوال) تمہیں میری محبت کی سچائی کا یقین کیوں نہیں آتا۔ شاہد (ڈسکہ) وغیرہ وغیرہ یہ نوجوانوں کے لئے ترغیب کا حربہ تھا جو کامیاب رہا اور اگلے سال کافی تعداد میں اصلی پیغامات آ گئے اور پھر چل سو چل کا معاملہ ہو گیا۔ پاکستان میں مغربی تہذیب کو پھیلانے پر بلکہ نوجوانوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے لڑکیوں کے ماں باپ سے بغاوت کرنے اور حقوق نسواں کی آڑ میں شادی بیاہ کے خود فیصلے کرنے اور ترقی کے نام پر ہم جنسوں سے آزادانہ ملاقاتیں کرنے اور جینز اور ٹی شرٹس پہننے پر مبنی ڈرامے پیش کئے گئے۔ ہر ڈرامے میں لڑکیوں نے جینز کا اس کثرت سے استعمال کیا کہ پاکستان میں لڑکیوں اور خواتین میں جینز کا رواج پڑ گیا اور وہ خواتین جو اپنے ماحول یا سماجی دبائو کے باعث خود جینز نہیں پہن سکتی تھیں۔ انہوں نے اپنی چھوٹی بچیوں کو جینز پہنا کر شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے شوق کی تسکین کر لی۔ جیو کی جانب سے ’’امن کی آشا‘‘ کی مہم پر ان سطور سمیت محب وطن پاکستانیوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف کی آمریت اور زرداری سیٹ اپ اور موجودہ کنفوژڈ نظام کے دوران بھی ’’امن کی آشا‘‘ مہم کے اثرات و مضمرات کی نشاندہی کی جاتی رہی مگر بے سود، وزیراعظم نواز شریف جن کے محب وطن پاکستانی ہونے پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی مگر جن کے تاجرانہ مائینڈ سیٹ نے سارے اہم مسائل پس پشت ڈال کر تجارت کی جائے کے بھارتی منصوبے کو کامیاب کی راہ ہموار کر دی۔ پاکستان میں آئی پی پیز کے ذریعہ بجلی کا شدید بحران پیدا کرکے صنعت و حرفت کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا گیا۔ بھارت میں نائی کی دکان پر بھی کسی پاکستانی اداکار یا اداکارہ کی تصویر نظر نہیں آئے گی اور پاکستانی فلم چلانے کا تو تصور بھی محال ہے لیکن پاکستان کے سنیمائوں میں کھلے عام بھارتی فلمیں چلائی جا رہی ہیں رشوت خور متعلقہ حکام جنہیں بھارتی کی بجائے غیر ملکی فلموں کا نام دے کر نمائش کی اجازت دے رہے ہیں یہ صرف جیو ہی نہیں انٹریٹمنٹ کے نام سے لائسنس حاصل کرنے والے دیگر چینلز بھی شعوری یا لاشعوری طور پر اپنی نشریات جاری رکھنے کے لئے بھارتی اور مغربی تہذیبوں کے پھیلائو کا ذریعہ بن رہے ہیں بے شک نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والے اور مذہبی حلقے ان کے لئے سدراہ ہیں مگر یہ بھارتی اور مغربی ثقافتی یلغار جو تیزی سے طوفانی شکل اختیار کر رہی ہے کیا اس کا رخ موڑا جا سکے گا یہ بہت غور طلب معاملہ ہے۔