دونوں انتہائیں درست نہیں
جس طرح جنگ اور جیو والوں کا آئی ایس آئی کے سربراہ کی تصویر ایک ’’مجرم‘‘ کی طرح ٹی وی سکرین پر مسلسل 8 گھنٹے تک دکھاتے رہنا انتہائی غلط تھا اسی طرح اس واقعہ کی آڑ میں کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی لیڈر کی طرف سے فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے یا دوسرے لفظوں میں مارشل لاء کی دعوت دینا بھی انتہائی غلط اقدام ہے۔ سیالکوٹ میں چھائونی کی طرف جانے والی سڑک پر ایک بہت بڑا فلیکس آویزاں کیا گیا ہے۔ جس پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اور آئی ایس آئی کے سربراہ کی تصاویر پرنٹ کروائی گئی ہیں۔ یہ فلیکس مسلم لیگ (ق) کی طرف سے لگوائی گئی ہے اور اس پر ’’پاک فوج کو سلام‘‘ کے الفاظ تحریر کئے گئے ہیں۔ ’’پاک فوج کو سلام‘‘ پوری قوم کے دلوں کی آواز ہے مگر فوج کو خراج عقیدت پیش کرنے کا میرے نزدیک سب سے خوبصورت طریق کار یہ ہو سکتا ہے کہ وطن عزیز کے دفاع کے لئے گراں قدر قربانیاں دینے والے غازیوں اور شہداء کی تصاویر فلیکس پر لگوائی جائیں۔ خود افواج پاکستان بھی جب اپنی طرف سے فوج کے کارناموں کا کسی بھی شکل میں اظہار کرتی ہیں تو اس میں نمایاں ترین حوالہ فوج کے شہیدوں اور غازیوں کا ہی ہوتا ہے۔ اگر آئی ایس آئی کے حاضر سروس سربراہ کی تصاویر کے فلیکس لگوانا درست ہے تو یہ کام خود آئی ایس آئی کو سنبھال لینا چاہئے کہ وہ پاکستان کے ہر شہر میں ہر اہم چوک پر اپنے سربراہ کی تصاویر لگوا دے۔ ایک سیاسی جماعت کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ فلیکس پر ایک طرف تو اپنے لیڈر کی تصویر چھپوا دے اور دوسری طرف باوردی حاضر سروس جرنیل کی۔ چودھری پرویز الٰہی کا تو ویسے بھی یہ اعلان بہت مشہور ہوا تھا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کو بار بار وردی میں ملک کا صدر منتخب کروائیں گے۔ اب جنرل پرویز مشرف تو اکیلے ہی اپنے خلاف آئین شکنی کے مقدمہ میں عدالت کا سامنا کر رہے ہیں اور چودھری برادران نے تو مسلم لیگ (ق) کی صدارت بھی انہیں پیش کرنے سے معذرت کر لی تھی کیونکہ پرویز مشرف وردی اتار چکے تھے۔ عجیب بات ہے کہ باوردی پرویز مشرف کے لئے تو ملک کی صدارت بھی حاضر تھی لیکن ریٹائرڈ جنرل مشرف کے لئے اس جماعت کی صدارت بھی نہیں جو خود پرویز مشرف نے اپنے دور آمریت میں آئی ایس آئی کے ذریعے بنوائی تھی۔ فوج کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ اداروں کے درمیان کوئی ٹکرائو موجود نہیں اور فوج سیاسی اور جمہوری قوتوں کے معاملات میں ہرگز مداخلت نہیں کرے گی لیکن چودھری پرویز الٰہی اپنی تصویر آئی ایس آئی کے حاضر سروس سربراہ کی تصویر کے ساتھ فلیکسوں میں لگوا کر ہماری سرحدوں کی محافظ فوج کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ فوج کو اپنے دائرے میں کام کرنا چاہئے اور سیاستدانوں کو اپنے دائرے میں۔ دونوں کے لئے جو آئینی حدود مقرر ہیں اس کا احترام ہر ایک کو کرنا چاہئے۔ اگر ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی پسند کے کسی کور کمانڈر کی باوردی تصویر کسی فلیکس پر لگوا کر اس کے ساتھ اپنی جماعت کے مرکزی لیڈروں کی تصاویر سجا کر سڑکوں پر لگوا دے تو کیا یہ مناسب ہو گا۔ اگر فوج کو مختلف حیلوں بہانوں سے سیاست میں مداخلت کی دعوت دینا درست ہے تو پھر تمام سیاسی جماعتوں کو اجازت دے دی جائے کہ وہ فوجی افسروں اور جوانوں کی باقاعدہ ممبر سازی کریں اور فوج میں بھی ہر سیاسی جماعت باقاعدہ اپنا ونگ قائم کر لے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہماری فوج پاکستان کی قومی فوج نہیں رہے گی بلکہ مختلف سیاسی دھڑوں کی فوج بن جائے گی اور یہ صورتحال ہمارے ملک کے لئے کتنی خطرناک ہو گی۔ اس لئے چودھری برادران سے گزارش ہے کہ وہ اس طرح کی آگ نہ پھیلائیں جو اداروں کو ہی تباہ کر دے۔ فوج کا ادارہ پوری قوم کے لئے قابل احترام ہے۔ اس ادارے کو اپنی سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اپنا جلسہ منعقد کرتی ہے یا ریلی وغیرہ کا اہتمام کرتی ہے تو اس میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی تصاویر لگے جھنڈے بلند کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ اسی طرح یہ بھی مناسب نہیں کہ کوئی شخص یا ادارہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے حق میں نعرے بلند کر رہا ہو اور کوئی مخالفت میں ایسا کر رہا ہو۔ میرے خیال میں آئی ایس آئی اور فوج کو خود بھی اس بات کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے رہنمائوں اور آئی ایس آئی کے حاضر سروس سربراہ کی تصاویر ایک ساتھ فلیکسوں کو صورت میں شائع کرکے سڑکوں پر لگوا رہا ہے تو ایسے فلیکس وہ خود اتروا دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہ سمجھا جائے گا کہ یہ سب کچھ آئی ایس آئی کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ جنگ اور جیو نے جو کچھ بھی غلط کیا ہے اس کا جواب یہ ہرگز نہیں کہ کچھ سیاسی یتیم اپنی سرپرستی کے لئے آئی ایس آئی کو دعوت دینا شروع کر دیں جو ادارے پوری قوم کی نگاہ میں قابل احترام ہیں انہیں متنازعہ بنانا قطعاً دانشمندی نہیں۔