پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے (نیکٹا) نے ملک کے بڑے شہروں میں حفاظتی انتظامات مزید سخت بنانے کیلئے فوج کو شہری حفاظتی دستوں کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ تجویز وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی زیرصدارت ہونیوالے اجلاس میں پیش کی گئی ہے جس کی حتمی منظوری وزیراعظم نوازشریف دیں گے۔ وزارت داخلہ کے مطابق یہ نیا سکیورٹی پلان ملک کے تمام بڑے شہروں کیلئے نافذ العمل ہوگا اور اسکا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔ وزارت داخلہ کے حفاظتی منصوبے کے مطابق شہروں کے داخلی راستوں، اہم مقامات اور چوراہوں پر فوجی اہلکاروں، رینجرز اور پولیس پر مشتمل مشترکہ ٹیمیں تعینات کی جائیں گی جنہیں مشکوک گاڑیوں کے علاوہ گھروں کی تلاشی کا اختیار بھی ہوگا۔ یہ ٹیمیں ملزموں کو گرفتار کر کے ان کیخلاف انسداد دہشت گردی کے مقدمات موقع پر ہی درج کرنے کی مجاز ہوں گی۔
آئین کے تحت فوج کی اولین ذمہ داری جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے‘ تاہم اسے ملک میں پیدا ہونیوالے خلفشار اور سماوی آفات جیسے معاملات سے نمٹنے کیلئے بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔ اندرون ملک قیام امن کیلئے پولیس جیسے ادارے موجود ہیں‘ معاملات اسکے قابو سے باہر ہو جائیں تو رینجرز‘ ایف سی‘ لیویز اور فوج کو بھی طلب کرنا پڑتا ہے۔ فوج کو سول معاملات سے جتنا دور رکھا جائے‘ اتنا ہی بہتر ہے لیکن بامرمجبوری اسکی عارضی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں ۔ یہ ایسا ناپسندیدہ عمل ہے جس کو مجبوراً قبول کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کے حالات دہائی سوا دہائی سے بگڑے ہوئے ہیں‘ امریکہ نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کا اعلان کیا تو پاکستان اس کا حصہ بنا۔ یہ جنگ دراصل افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ تھی جس کی لپیٹ میں پاکستان بھی آگیا۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا‘ شدت پسندوں نے کئی علاقوں میں اپنی طاقت کے مراکز قائم کئے‘ آئین اور قانون کی عملداری کو چیلنج کیا‘ قانون نافذ کرنیوالے ادارے بے بس ہوئے تو حکومت کو فوج طلب کرنا پڑی۔ فوج نے پہلا اپریشن سوات میں کیا اور دہشت گردوں کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ اسکے بعد شدت پسندوں نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اپنے ٹھکانے بنالئے۔ جہاں پاک فوج اور عسکریت پسند ایک دوسرے کیخلاف برسر پیکار ہیں۔ سوات دہشت گردوں سے خالی ہوا تو سول انتظامیہ کو معاملات سنبھال لینے چاہئیں تھے‘ اپریشن راہ حق اکتوبر 2007ء میں ہوا جس کو آج سات سال ہونے کو ہیں لیکن اب تک وہاں فوج موجود ہے۔ سوات سے فوج کے مکمل انخلاء میں سول انتظامیہ کو آخر کتنا عرصہ درکار ہے؟ فوج اسکے ساتھ فاٹا میں بھی تعینات ہے۔ جہاں حکومت نے مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوشش کی۔ فاٹا کے امن کے ساتھ پورے ملک کا امن وابستہ ہے۔ حکومت کی مذاکرات کے ذریعے امن کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ نوازلیگ حکومت گزشتہ سال ستمبر سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ طالبان کی طرف سے مذاکرات میں اس طرح کی سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آئی‘ جس کا اظہار حکومت کی طرف سے ہوتا رہا۔ ایک طرف مذاکرات جاری تھے تو دوسری طرف دہشت گردی بھی ہوتی رہی اور اکثر واقعات حتٰی کہ 23 فوجیوں کے گلے کاٹنے کی ذمہ داری بھی طالبان کی طرف سے قبول کی جاتی رہی۔ شدت پسند اور انکے حامی مذاکرات سے قبل ہی اپنے مطالبات منوانے پر بضد رہے۔ حالانکہ قیدیوں کی رہائی جیسے مطالبات مذاکرات کے دوران ہوتے ہیں‘ مذاکرات کی کامیابی پر مطالبات پر عمل ہوتا ہے۔
اب مذاکرات کا باب تقریباً بند ہو چکا ہے۔ حالیہ دنوں چینی سائیکلسٹ کے اغواء اور اسکی ذمہ داری قبول کرنے پر مذاکرات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ فوج نے شمالی وزیرستان میں تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ روز اپریشن میں سات شدت پسند ہلاک اور سات ہی زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل دو روز میں انکے کئی ٹھکانے تباہ کئے گئے۔ اس دوران 100 گھر اور 300 دکانیں اڑادی گئیں۔ پہلے روز کارروائی میں 60 شدت پسند مارے گئے۔ مہمند باجوڑ طالبان گروپ نے اعلان کیا ہے کہ اب جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ خودکش بمبار بھیجیں گے‘ طالبان نے پہلے بھی ریاست اور حکومت بلکہ عوام کیخلاف جنگ میں کوئی کسر نہیں چھڑی اب وہ مزید تیاری کے ساتھ حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ بعض حلقے یہ کہتے رہے ہیں کہ طالبان مذاکرات کی آڑ میں طاقت حاصل کرکے حملے کرنا چاہتے ہیں۔ اگر طالبان واقعتاً مذاکراتی عمل کے دوران طاقت حاصل کرتے رہے تو انکے عزائم خوفناک اورحملے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ رات اسلام آباد میں دو دھماکے ہوئے جس میں خودکش حملہ آور مارا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں چینی ماہرین کی سکیورٹی موثر بنانے پر گفتگو کی۔ اندرونی سکیورٹی پولیس جیسے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا کام ہے لیکن یہ ادارے بوجوہ اپنی ذمہ داریاں کماحقہ ادا کرنے سے قاصر ہیں تو لامحالہ فوج کو سکیورٹی کا حصہ بنانے پر حکومت بجا غور کر رہی ہے۔ لیکن حکومتی تجویز میں فوج کو ملک کے اندر سکیورٹی کا حصہ بنانے کیلئے مدت کا تعین نہیں کیا گیا۔ کیا یہ عارضی بندوبست ہے یا مستقل ہوگا؟ آپ نے پہلے ہی فاٹا میں فوج تعینات کر رکھی ہے‘ سوات سے ابھی تک مکمل طور پر فوج نہیں نکل سکی‘ آخر آپ مزید کتنی فوج ڈپلائے کرینگے اور کب تک؟
ملک میں سکیورٹی کا حصہ بنانے کیلئے فوج کو عارضی طور پرہی تعینات کرنا چاہیے۔ حکومت پولیس کا کام فوج سے لے رہی ہے۔ پولیس کو اس طریقے سے تیار کیا جائے کہ فوج اپنی ذمہ داری ادا کرکے اپنے اصل فرائض کی طرف متوجہ ہو اور معاملات پولیس سنبھال لے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ فوج ایسے معاملات میں خود کو ملوث کرنے پر رضامند ہے؟ حکومت کو بالآخر پولیس پر ہی اعتماد کرنا ہو گا۔ اس کیلئے حکومت بھی کیا کوئی اقدامات کررہی ہے؟ پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کیلئے اب تک کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ موجودہ حالات کے مطابق تربیت کا کیا اہتمام ہوا؟ حکومت نے اس پر کوئی کام کیا یا پلاننگ کی تو اس سے قوم کو آگاہ کرے اور اگر کچھ نہیں کیا‘ اس کا ہی زیادہ امکان ہے تو اب منصوبہ بندی کرے۔ اگر آپ پولیس کو وہی ذمہ داری سونپنا چاہتے ہیں جو فوج مجوزہ طور پر چھوڑ کر جائیگی تو پولیس کے پے سکیل بھی ریوائز کرنا ہونگے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38