
کہتے ہیں کہ کہتے رہئے کہتے رہنے سے فرق پڑتا ہے مگر جب بات کسی ایسے طبقے کی ہو جو ہماری توجہ کا مستحق ہو تو ہمیں بے پروائی اختیار نہیں کرنی چاہئے انکے لئے نہ صرف کہتے رہنا چاہئے بلکہ جتنا ہوسکتا ہے آواز بلند کرنی چاہئے متعلقہ حکام اور ایوانوں تک پہنچانی چاہئے۔ اس مشن پر افراد باہم معذور اور بالخصوص ایک تو وہ افراد باہم معذور ہوں پھر ہوں بھی ایسے علاقے کے جو دیہی بھی ہو سیلاب کی زد میں بھی اور اس سے بڑھ کر یہاں کے ایسے بچے بچیاں خواتین یہ سب ہماری توجہ کے منتظر ہیں انکے لئے دوآبہ فاو¿نڈیشن سی بی ایم اور اوپی ڈی کے ساتھ ملکر فعالیت کے ساتھ کردار ادا کررہی ہے انکے توسط سے اس تحریر کو رقم کرنے سے قبل مراد آباد سے کہیں آگے اندر بستیوں میں جاکر بستی مراد آباد ،ترہڈا ، لکڑو والا اور قرب وجوار میں افراد باہم معذور سے ملاقات ہوئی تو کئی ایک مسائل حقائق سامنے آئے جو سماجی شعور نہ ہونے کا نتیجہ ہے اس ضمن میں دوآبہ کا کردار قابل تحسین ہے جس نے یہ شعور اجاگر کیا ہے ایسے افراد سے اس بار ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ کسی اور سے انتظامیہ سے کیا گلہ کریں ہمارے ساتھ تو رویہ اپنوں کا ہی عجیب وغریب ہوتا ہے خیال نہیں رکھا جاتا آپ وہیل چیئر کی بات کرتے ہیں یہاں راستہ ہی اس قابل نہیں جس پر وہیل چیئر کو روا رکھا جاسکے۔ ہماری یونین کونسل میں سکول بہت فاصلے پر ہے جہاں ہم ایسوں کےلئے کوئی خاص سہولت نہیں یونین کونسل دفتر سطح پر کبھی کام پڑجائے تو بھی افسوسناک ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارے مسائل اور معذوری کا بھی لحاظ نہیں رکھا جاتا ہسپتال کا ہونا نہ ہونا برابر ہے ہمارے لئے کوئی خاص سہولیات راستہ تک میسر نہیں بجائے سرکاری ہسپتال سے دوائی دینے کے وہاں سے لکھ کر دوائی دی جاتی ہے جو کہ مہنگی ہوتی ہے مگر علاج کیونکہ مجبوری ہے اس لئے ہم خریدنے پر مجبور ہیں۔ مراد آباد میں ہونے والے مکالمے سے ان افراد باہم معذور کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ ہمیں بے کار سمجھا جاتا ہے بوجھ سمجھا جاتا ہے معاشرے کا خاطر خواہ حصہ نہیں سمجھا جاتا جبکہ ہم کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے اور ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں اس کے باوجود مواقع سہولیات میسر نہیں۔مصطفی ، اللہ بخش اور نوراں بی بی نے بتایا پہلے لحاظ کیا جاتا تھا رشتہ دار ایسے لوگوں کا خاص خیال رکھتے تھے اب نہ تو خوشی غمی کے مواقع پر ساتھ لے جایا جاتا ہے نہ اب آگے افراد باہم معذور کے رشتے ہورہے ہیں جوکہ معاشرتی المیہ اور اخلاقی وسماجی دیوالیہ پن ہے۔ کرم الہیٰ نے کہا آج تک ہمارے شناختی کارڈ کے پراسیس کو آسان نہیں کیا گیا آج جب سائنس ٹیکنالوجی تشخیص شناخت سب آسان ہوگئی ہے ہر چیز میں جدت آگئی ہے مگر ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں کسی کو پرواہ اور فکر نہیں۔ یہ تو ان کے دکھ مسائل ہیں جن کے حل کےلئے انہوں نے حکومت ، انتظامیہ سوشل ویلفیئر سے توقعات وابستہ کی ہوئی ہے اور اس وقت یہ ادارے فعالیت کے ساتھ اپنے اپنے حصے کا کام کر بھی رہے ہیں مگر یہاں ضرورت اس امر کی ہے گھر ، محلے ، بستی علاقے کی سطح پر ہم سب کی بھی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں ہیں ان کو ادا کیا جائے مسائل یا حل صرف مطالبات سے یا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جانے سے نہیں ہوتا کئی ایک مسائل ان افراد کے ایسے ہیں جو ان سے وابستہ افراد نے محض ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے اور وہ مسائل حل ہوجانے ہیں۔ ان لوگوں کو گھر کی سطح پر ڈومیسٹک سطح پر کچن ، کام کاج ، روزگار ، یہاں تک گھر میں سوئچ بٹن تک اس طرح سے نصب کرنے کی ضرورت ہے جو افراد باہم معذور کےلئے آسان دسترس میں ہوں پنکھا ، لائٹ ، موبائل چارجر کے استعمال ، کچن میں خود کام کے خواہشمند ہوں یا ضرورت پڑھائے اشیا کا ان کی دسترس کے حساب سے موجود ہونا گھر میں کسی کی عدم موجودگی میں یہ سہولیات انہیں دستیاب کرنا ان کے متعلقین کی ذمہ داری ہے یہ ہم سب نے مل کر بطور رکن معاشرہ ان
افراد کےلئے کام کرنا ہے تاکہ ان کے حقوق کی دستیابی وفراہمی مسائل کا حل گھر بستی علاقے اور معاشرتی وسماجی سطح پر ہو یہ کام پہلے ہونا نہایت ضروری ہیں باقی امور کا نمبر کہیں بعد میں آتا ہے۔