فکر مند صدر پاکستان! بے رحم سیاست


صدر مملکت عارف علوی کی ملک کے لئے فکر اور سیاسی کارکنوں کے درد کو محسوس کرنے کا جذبہ بیدار ہوا ہے یہ دیکھ اور سن کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ شکر ہے کوئی تو ہے جسے شہریوں کی نہ سہی سیاسی کارکنوں کی فکر تو ہے۔ جہاں یہ باعث خوشی ہے وہیں باعث تشویش بھی ہے کیونکہ لگ بھگ پانچواں سال ہے جب سے وہ اس عہدے پر ہیں اور یہ پہلا موقع ہے جب انہیں سیاسی کارکنوں کی فکر لاحق ہوئی ہے ورنہ حالات تو برسوں سے ایسے ہی ہے۔ صدر مملکت نے کمال صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشکل ترین حالات میں بھی خاموشی اختیار کئے رکھی انہوں نے بولنے کے بجائے حالات کو دیکھتے ہوئے لب کشائی سے گریز کیا، تمام حالات پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ پر جبر کیا اور کسی کو ہدایات جاری کرنے اور معاملات کو خرابی سے بچانے کے لیے چپ کا روزہ رکھنا ہی بہتر سمجھا لیکن آخر کب تک وہ یہی رویہ اختیار کرتے، آخر کو انسان ہیں، کب تک خاموش رہتے، کب تک ظلم دیکھتے رہتے وہ چپ رہے دیکھتے رہے ان کہ آنکھوں کے سامنے نجانے کیا کچھ نہیں ہوا، حکومتیں بدل گئیں، منظر بدل گیا، لوگ بدل گئے، ترجیحات بدل گئیں سب کچھ بدلتا گیا تو پھر تنگ آ کر صدر مملکت عارف علوی نے بھی چپ کا روزہ توڑا اور انہوں نے وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کو خط لکھ کر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ گوکہ یہ خط بھی سیاسی ہے اس لئے دکھ اسی بات کا ہے کہ صدر پاکستان جو کہ غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ صدر کے عہدے کا تقاضا غیر سیاسی رہنا ہے لیکن انہوں نے غیر سیاسی ہونے کے بجائے سیاسی خط لکھ کر اس ملک کے کروڑوں لوگوں، وسائل سے محروم افراد، غریبوں اور جبر کا سامنا کرنے والوں کے زخموں پر نمک ہی چھڑکا ہے۔ 
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مقررہ وقت پر انتخابات کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھا ہے۔ صدر عارف علوی نے لکھا ہے کہ "وزیراعظم توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے متعلقہ حکام کو ہدایت کریں۔ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی صورتحال اور مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں لہذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے۔صدر پاکستان کا اپنے خط میں کہنا ہے کہ 2021 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 180 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر تھا، اس سال کے اقدامات سے اس انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی مزید نیچے آئے گی۔"
صدر مملکت کو انسانی حقوق کی فکر بھی لاحق ہوئی ہے، اب انہیں آئین کی پامالی کا بھی دکھ ہو رہا ہے لیکن تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ایک طرف صدر پاکستان کو بہت تحفظات ہیں لیکن کاش وہ عام آدمی کے لیے بھی کوئی خط لکھتے، کاش وہ عام آدمی کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بھی کوئی خط و کتابت کرتے، وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مشکل ہوتی زندگی کے لیے فکر مند ہوتے۔ جس دن صدر پاکستان نے وزیر میاں محمد شہباز شریف کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے خط لکھا ہے اسی روز کراچی میں پھلوں سبزیوں کے سستے سٹال پر خریداری کے لئے آنے والوں نے سٹال الٹا دیا۔ جہاں سے کچھ لوگوں کو کم قیمت پر پھل سبزیاں مل سکتی تھیں وہاں بھی جلد بازی اور پہلے میں کی دوڑ نے سب کو محروم کر دیا۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ صورتحال اور کیا ہو گی کہ لوگ سب کچھ لینے کے لالچ میں ایک کلو آلو سے بھی محروم ہوئے۔ کاش کہ یہ خبر بھی صدر مملکت کہ نظر سے گزرتی انہیں انسانی حقوق کی فکر لاحق ہے اور یقینا یہ سیاسی حقوق ہیں چونکہ وہ صدر کے عہدے پر ہوتے ہوئے بھی مخصوص حالات میں پاکستان تحریک کی نمائندگی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اس لیے یہ خط زیادہ تکلیف دہ ہے۔ کیا آئین ایک عام شہری کے حقوق کی حفاظت نہیں کرتا۔ کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کہ ہر روز راستے روکے جاتے ہیں، کمزور ظلم و ستم برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن صدر مملکت کو کبھی خیال نہیں آیا۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے جس دن صدر مملکت نے انتخابات کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان کو خط لکھا اسی روز ادارہ شماریات نے مہنگائی کے اعدادوشمار جاری کئے۔ جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مہنگائی کی شرح میں 1.80 فیصد کا بڑے ریکارڈ اضافے کے بعد ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 46.65 فیصد ہو گئی ہے۔ ایک ہفتے میں چھبیس اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، ٹماٹر 41 روپے 85 پیسے فی کلو مزید مہنگا ہو کر سنچری مکمل کر گیا جبکہ آٹے کا تھیلا 769 روپے 12 پیسے مزید مہنگا ہوا اور ملک میں آٹے کا تھیلا اوسطاً 2586 روپے 37 پیسے تک پہنچ گیا ہے۔ کیلئے 21 روپے 57 پیسے فی درجن اور چائے کا پیکٹ 34 روپے 37 پیسے مہنگا ہوا جبکہ مٹن 13 روپے 78 پیسے اور دال ماش ساڑھے 6 روپے فی کلو مہنگی ہوئی، اس کے علاوہ بیف 6 روپے 31 پیسے فی کلو، اڑھائی کلو والا گھی کا ڈبہ 8 روپے 84 پیسے مہنگا ہوا، چینی، دہی، دودھ، چاول بھی مہنگے ہوئے۔ 
کاش وزیراعظم پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کی خط و کتابت کرتے ہوئے صدر مملکت ان اعدادوشمار کا بھی خیال کرتے۔ پاکستان کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ انتخابات ہرگز نہیں ہیں جیسا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن نہیں عام آدمی کی مشکل ہوتی زندگی کا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف اس وقت بھی غلط سمت میں آگے بڑھتی رہی نہ ہی کرپشن میں کمی آئی نہ ہی عام آدمی کی زندگی آسان ہوئی آج بھی انہوں نے انتخابات کی رٹ لگا رکھی ہے جب کہ ملک میں امن و امان کے حوالے سے شدید خطرات لاحق ہیں اور ملک شدید معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ ان دو بڑے مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف انتخابات کے فوری انعقاد پر بضد ہے۔ صدر پاکستان بھی چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے اس بیانیے کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کی طرف سے موجودہ خط بھی سیاسی عمل ہے۔ کاش وہ غیر سیاسی ہو کر ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے پیش نظر کردار ادا کریں۔

ای پیپر دی نیشن