
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق کرکٹر عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے توڑ کر پاکستانی سیاست میں نہ صرف ہلچل مچا دی تھی بلکہ سیاسی عمل کو غیر متوازن بھی کر دیا تھا-جب عمران خان نے دو صوبوں میں اسمبلی انتخابات پہلے کرانے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی انتخابی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے دانشوروں نے عمران خان کے اس فیصلے کو سیاسی بصیرت اور تجربے سے عاری قرار دیا تھا اور یہ رائے دی تھی کہ ان کے اس فیصلے پر عمل درآمد کرنا ممکن نہیں ہوگا-سپریم کورٹ نے بھی عجلت میں فیصلہ دیا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کے انتخابات آئین کی منشا کے مطابق نوے روز کے اندر کرائے جائیں-سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی متفقہ نہیں تھا بلکہ 9 میں سے 3 ججوں کا فیصلہ تھا - 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا اور 5 رکنی بینچ کے 3 معزز ججوں نے دو صوبوں میں انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا تھا- الیکشن کمیشن پاکستان نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق انتخابات کرانے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں- انتخابی شیڈول کے مطابق سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی بھی داخل کرا دیے تھے-چیف الیکشن کمشنر نے انتخابات کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے ریاست کے مختلف شعبوں سے مشاورتی اجلاس بھی شروع کر دیے تھے ان اجلاسوں کے دوران ان کو جو بریفنگ دی گئی اور جو شواہد پیش کیے گئے ان کی روشنی میں چیف الیکشن کمشنر اس نتیجے پر پہنچے کی سکیورٹی خدشات کے پیش نظر پنجاب میں 30 اپریل کو انتخابات کرانا ممکن نہیں ہے- اس سلسلے میں خفیہ ایجنسیوں نے بریفنگ دی کہ پاکستان کے حالات اس وقت دہشت گردی کے حوالے سے تشویش ناک ہو چکے ہیں اور دہشت گرد انتخابی مہم کے دوران اور پولنگ ڈے پر دہشت گردی کی کاروائیاں کر سکتے ہیں-پاک فوج نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ چونکہ دہشت گردی کے خلاف حساس نوعیت کی جنگ لڑ رہی ہے لہذا پاک فوج کو الیکشن ڈیوٹی کے لئے فراہم کرنا ممکن نہیں ہے - الیکشن کمیشن کے نئے فیصلے کے مطابق اگر 30 اپریل کو انتخابات کرا دیئے جاتے تو پولنگ اسٹیشنوں پر ڈیوٹی کے لئے پولیس اور فوج موجود نہ ہوتی تو پرزائیڈنگ آفیسروں کے اغوا کا خطرہ پیدا ہو جاتا جیسا کہ پہلے کئی انتخابات میں یہ واقعات ظہور پذیر ہو چکے ہیں- تحریک انصاف کے لیڈر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بد نیتی پر مبنی حکومت الیکشن کمیشن کا گٹھ جوڑ قرار دے رہے ہیں-
وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے چیف الیکشن کمشنر کے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج کل تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف بہت اونچا ہے لہٰذا ان حالات میں حکومتی جماعتیں انتخابات لڑنے کی متحمل ہی نہیں ہو سکتیں - ان کی جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر مسرت کا اظہار قابل فہم ہے- چیف الیکشن کمشنر نے اعلان کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو کرائے جائیں گے جس سے بجا طور پر یہ تاثر لیا جا رہا ہے کہ آٹھ اکتوبر کو عام انتخابات کرائے جائیں گے جن میں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات شامل ہوں گے-چیف الیکشن کمشنر کے اس فیصلے سے تحریک انصاف کو سیاسی دھچکہ لگا ہے جس کا یہ خیال تھا کہ انتخابات اگر 90 روز کے اندر ہو جائیں تو وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا دونوں صوبوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو جائے گی پھر اس کے بعد قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے جن میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو سیاسی فائدہ ہو سکے گا-تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو آئین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس فیصلے کے بعد یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان میں آئین کا کوئی وجود ہی نہیں رہا اور ملک میں سویلین مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ہے- سپریم کورٹ بار نے بھی چیف الیکشن کمشنر کے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ آئین الیکشن کمیشن کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ انتخابات ملتوی کردے جبکہ سپریم کورٹ نے اسے نوے روز کے اندر انتخابات کرانے کا حکم دے رکھا ہو- گزشتہ روز پاکستان کے چیف جسٹس محترم عمر عطا بندیال نے وکلاء کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتباہ کیا تھا کہ اگر انتخابات میں تاخیر کے عمل میں الیکشن کمیشن کی بد نیتی نظر آئی تو سپریم کورٹ مداخلت کرے گی- دیکھنا یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ ایک بار پھر از خود نوٹس لیتی ہے یا تحریک انصاف کے لیڈر اور سپریم کورٹ بار کے عہدیدار چیف الیکشن کمشنر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہیں- اگر یہ معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ میں چلا گیا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایسے تمام ثبوت اور شواہد تیار کر لیے ہوں گے جن کو دیکھ کر سپریم کورٹ کے ججوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہوگا کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کی 8 اکتوبر کی تاریخ کو عام انتخابات کے لیے تسلیم کرلیں- البتہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں یہ وضاحت کر سکتی ہے کہ 8 اکتوبر کو قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے- اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں ایک دو ماہ کے بعد نئی منصوبہ بندی کر کے قومی اسمبلی کی آئینی مدت کو آگے بھی بڑھا سکتی ہیں-
پنجاب کے سابق آئی جی پولیس محترم الطاف قمر سوچ بچار کرنے والی شخصیت ہیں انہوں نے ایک صا ئب تجویز پیش کی ہے کہ تحریک انصاف کو یہ موقف اختیار کرنا چاہیے کہ اگر سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر انتخابات 8 اکتوبر کو ہونے ہیں تو پھر وہ عام انتخابات ہوئے چاہیں اور پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیوں کو بحال کردینا چاہیے اور قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کی رکنیت بحال ہو نی چاہیے- قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تحریک انصاف کا ہونا چاہیے تاکہ اگلے انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کیا جا سکے- انتخابات کے لیے 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کا فیصلہ بہت سوچ بچار کے بعد کیا گیا ہے ستمبر میں پاکستان کے موجودہ صدر اور چیف جسٹس دونوں ریٹائر ہو جائیں گے اور میاں نواز شریف کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے اور مریم نواز کے پنجاب کی وزیر اعلی بننے کے امکانات روشن ہو جائیں گے- نئے انتخابی بند و بست میں عمران خان کو مرکز اور پنجاب دونوں نہیں دیے جا سکتے پنجاب ہر صورت مسلم لیگ نون کو دیا جائے گا تاکہ سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان توازن قائم رہے-
٭…٭…٭