
جب سے ہوش سنبھالا وطن عزیز کو کسی نہ کسی موڑ پر کھڑا پایا، کبھی نازک موڑ، کبھی اہم ترین موڑ، کبھی تاریخی ،کبھی فیصلہ کن موڑ ،ملک کو ہم اتنے موڑ گھما چکے کہ اب سمجھ نہیں آرہی کہ آج ہم کس موڑ پر ہیں یا جس موڑ پر ہیں اسے کیا نام دیں۔ ملک کی معاشی صورتحال کو ہمیشہ اعدادوشمار کے ہیر پھیر میں چھپایا اور بہلایا جاتا رہا۔ اب تو ہمارے پاس یہ اعدادوشمار بھی ختم ہوگئے۔ سیدھا سا سوال پوچھا جاتا ہے، خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہوجائے گا یا بچ جائے گا؟ کہیں تو بحث اس بات پر یہ بھی ہوتی ہے کہ ملک دیوالیہ ہوچکا یا نہیں۔ یہ معاشی بحران ، معاشی مجبوری بن چکا ہے جس نے ہمیں ہر اس ادارے اس ملک کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے جو کسی نہ کسی طرح ہماری معاشی مدد کرسکتا ہے یا کر چکا ہے۔اب تو چھوٹے موٹے معاشی فیصلے بھی ہمارے اپنے ہاتھ میں نہیں رہے لیکن اس سے ہٹ کر جو سیاسی بحران ہے اس کا ذمہ دار تو کوئی اور ہے نہ اس کا حل کسی اور کے پاس۔
ایک سال سے ملک سیاسی افراتفری کا شکار ہے،گزشتہ سال ملک میں پہلی بار آئینی طریقہ کار سے ایک تبدیلی لائی گی۔ کیوں لائی گئی اس کی وجہ کوئی بھی ہو ، جس طرح آئی اس میں تو کم از کم کوئی غیرآئینی عمل نہیں تھا۔ پھر کیا ہوا ہم نے اسے تسلیم کرنے کی بجائے نئی نئی توجیہات، نئے نئے الزامات لگادیے۔ جو بھی سامنے آیا وہ ہمارے الزامات کے تیر سے چھلنی ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ سوچیں اگر اس آئینی تبدیلی کا ردعمل بھی آئینی ہوتا پارلیمان کے اندر کی جانے والی تبدیلی کا مقابلہ بھی پارلیمان کے اندر رہ کر کیا جاتا تو آج کے سیاسی حالات یکسر مختلف نہ ہوتے۔ جو کچھ آج ہونے جارہا ہے وہ کیونکر دیکھنا پڑتا۔ پھر کہہ دیا گیا نئے انتخابات کراؤ یہی مسئلے کا حل ہے۔ چھ آٹھ مہینے اسی لے دے میں گزرے، سیاسی غیر یقینی اور معاشی عدم استحکام بڑھتا چلا گیا۔ پھر ’گن پوائنٹ‘ پر عام انتخابات کرانے کے لیے دو اسمبلیاں تڑوا دی گئیں۔
اب ان دو اسمبلیوں میں تین ماہ کے اندر انتخابات ہونے ضروری ہوگئے۔ ان اسمبلیوں میں انتخابات پانچ سال کے لیے ہوں گے یعنی نئی صوبائی حکومتوں کی آئینی مدت اگلے پانچ سال تک ہوگی۔ اب اس کے چند ماہ بعد دوسرے دو صوبوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں جس کی لگ بھگ دو تہائی نشستیں دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہیں۔ ان صوبوں میں اگر کسی ایک جماعت کی حکومت ہوگی تو کیا اس کی تحت ہونے والے انتخابی نتائج کو قبولیت ملے گی جبکہ ہمارے یہاں تو عبوری حکومتوں میں ہونے والے انتخابات بھی متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ پھر دو صوبوں میں انتخابات پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہوں گے اور باقی ملک میں نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے ساتھ۔ اگر دو صوبوں میں بعد میں نئی حلقہ بندیاں کر دی جاتی ہیں تو پرانے حلقے جن کے تحت ان کے ارکان منتخب ہوئے وہ تو ختم ہوجائیں گے تو اگر کہیں ضمنی انتخاب کرانا پڑا تو وہ کس حلقے میں ہوگا۔
ایسی تمام آئینی پیچیدگیاں آئندہ پانچ سال سامنے کھڑی رہیں گی جن سے بچنے کے لیے پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات ضروری سمجھے جاتے ہیںلیکن دو اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، کیا مزید تین کو بھی تحلیل کردیا جائے؟ ایسا بھی ممکن اور مناسب نہیں، اور جو اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں ان کے انتخابات نہ کرائے جائیں تو آئینی بحران۔ الیکشن کمیشن نے جب اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی تو سکیورٹی کے مسائل بتائے گئے اور معاشی بھی۔ ایک سال میں پہلے دو صوبوں کے اور پھر باقی دو صوبوں اور مرکز کے انتخابات کے لیے الگ الگ سکیورٹی انتظامات کرنا ہوں گے۔ سکیورٹی اور دیگر اخراجات بھی ڈبل ہوجائیں گے تو الیکشن کمیشن نے تمام صوبوں کے انتخابات ایک ساتھ اکتوبر میں کرانے کا فیصلہ کیا لیکن پی ٹی آئی نے معاملہ دوبارہ اعلیٰ عدالت میں لے جانے کا اعلان کردیا اور انتخابات کے معاملے پر اہم ترین ادارے آمنے سامنے آرہے ہیں۔
اب ایک جانب یہ آئینی بحران سراٹھائے کھڑا ہے تو دوسری جانب ایک پیچیدہ سیاسی بحران اور ان سے نکلنے کا کوئی متفقہ حل بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اب سوچیں اگر تمام صوبائی حکومتیں قائم رہتیں،صرف چند ماہ پہلے انتخابات کی ضد کی بجائے ایک ساتھ انتخابات کی تیاری کی جاتی تو کیا یہ بحران جنم لیتے لیکن اس سب میں جو چیز آڑے آئی وہ سیاسی عدم برداشت ہی ہے۔ ہم نہیں تو وہ کیوں، اسی عدم برداشت سے پیدا کیے گئے بحرانوں نے ہمیں اس موڑ پر لاکھڑا کردیا ہے۔ ملک میں جاری معاشی بحران کے حل کی طرف لے جانے کے لیے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ناگزیر ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ ہمیں نہ معاشی بحران کی سنگینی کا ادراک ہے نہ سیاسی اور آئینی بحران کے سے جنم لینے والے ممکنہ حالات کا۔ ہمارے لیے کچھ اہم ہے تووہ ہے ہماری سیاست اور اقتدار۔ یہ انتہائی نازک موڑ ہے ، اہم بھی اور شاید فیصلہ کن بھی ۔ یہ سب موڑ تو ہم پہلے بھی دیکھتے رہے ہیں لیکن اب شاید حقیقت میں ہی کوئی نازک موڑ آچکا ہے!