ہفتہ ‘ 3 رمضان المبارک 1444ھ‘ 25 مارچ 2023ء

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ میرے دونوں فون نامعلوم افراد رات کو میرے گھر پر چھوڑ گئے۔ تین فون ابھی تک ان کے پاس ہیں۔
شیخ صاحب! 2 کان اور اتنے فون۔ایک وقت میں ایک فون سے ایک ہی کان پر بات ہو سکتی ہے‘ پھر پانچ فون رکھنا کچھ سمجھ نہیں آیا۔ آجکل سیاست میں آڈیو اور ویڈیوز کا بہت عمل دخل نظر آرہا ہے۔ چند روز قبل توشہ خانے کی رپورٹ منظر عام پر آئی جس کے حمام میں سب ہی ننگے نظر آئے۔ مگر کمال ہے کہ بااثر سیاست دان ہوتے ہوئے بھی شیخ صاحب اس حمام سے باہر ہی نظر آرہے ہیںجو واقعی قابل ستائش بات ہے۔ نامعلوم افراد شاید شیخ صاحب کی کوئی ویڈیو انکے موبائل فون سے چرا کر قوم کے سامنے لانا چاہتے ہونگے مگر انہیں کیا معلوم کہ ’’شیخ‘‘ سے کوئی چیز لینا تو درکنار‘ اسکے موبائل فون سے بھی کوئی چیز برآمد نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے نامعلوم افراد دو موبائل فونز سے کچھ نہ ملنے پر مایوس ہو کر رات کے اندھیرے میں شیخ صاحب کے گھر چھوڑ گئے۔ لیکن انکے پاس شیخ صاحب کے اب بھی تین فونز موجود ہیں‘جن کی وہ یقیناً ’’پھولا پھالی‘‘ کر رہے ہونگے۔ امید ہے کہ انہیں ان موبائل فونز سے بھی شیخ صاحب کیخلاف کوئی مواد نہیں ملے گا جو وہ عوام کے سامنے لا کر شیخ صاحب کو شرمندہ کر سکیں۔ شیخ صاحب سیاسی میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں‘ انہوں نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں‘ آڈیوٍ ویڈیو کی سیاست سے وہ خاصے چوکنے ہو چکے ہیں۔البتہ وہ دوسروں پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں‘ اسی لئے تو ہر پریس کانفرنس میں چہک چہک کر صحافیوں کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ انہیں سب پتہ ہے کہ کون کیا کررہا ہے۔ اگر یہ باز نہ آئے تو ایسا ہو جائیگا‘ ویسا ہو جائیگا۔ یقین مانیے‘ آج تک نہ ایسا ہوا نہ ویسا‘ انہوں نے اب تک جو بھی تجزیے کئے‘ وہ ہوا میں تیر ہی ثابت ہوئے۔ وہ سیاسی میدان کے پرانے کھلاڑی ضرور ہیں‘ مگر بارہویں نمبر کے۔
٭…٭…٭
خبر ہے کہ قبرستانوں میں تدفین کی فیس 10 کے بجائے ساڑھے تین ہزار کردی گئی۔
چلیں! زندہ لوگوں کو نہ سہی‘ مُردوں کو ہی سہی‘ حکومت نے ریلیف تو دیا‘ جو غنیمت ہے۔ مردے اوپر جا کر یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ ہماری سرکار نے ہماری زندگی میں تو کچھ نہ کیا‘ مگر ہمارے مرنے کے بعد اتنا ریلیف ضرور دے دیا کہ ہم کم از کم قبر میں تو سکون سے سو سکیں اور عزیز و اقارب کو ہماری تدفین کیلئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑے۔ کمال ہے جناب! زندوں کیلئے روٹی مہنگی اور قبر سستی کردی گئی جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ اب غریب کو جینے کا کوئی حق نہیں کیونکہ ہر چیز تو اسکی دسترس سے باہر کردی گئی ہے۔ اس حکومتی ریلیف کے بعد اب مردوں کو یہ گلہ بھی نہیں رہے گا:
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
مہنگائی کو جس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے‘ ان حالات میں غریبوں کا مر جانا ہی بہتر ہے۔ زندگی صرف اشرافیہ طبقات کیلئے رہ گئی ہے‘ غریب غرباء تو صرف عمر کاٹ رہے ہیں‘ وہ بھی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر۔ گزشتہ دنوں نان بائیوں نے پھر حکومت کو تڑی لگا دی کہ آٹا مہنگا ہونے کی وجہ سے اب روٹی 25 روپے میں فروخت کی جائیگی۔ خدا کا غضب! غریب ایک روٹی لے کر روکھی سوکھی کھا لیتا تھا‘ اب اس سے یہ بھی چھینی جا رہی ہے۔ حکومت کا اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ صرف رمضان المبارک میں مستحقین کو آٹا مفت فراہم کررہی ہے لیکن جو دوسری طرف قوت خرید رکھنے والوں کیلئے یہی دس کلو والے آٹے کا تھیلا 648 سے بڑھا کر گیارہ سو روپے سے بھی زیادہ کر دیا تاکہ مفت بانٹنے والے تھیلوں کی قیمت ان سے وصول کی جا سکے۔ رہی سہی کسر دال چینی اور سبزی فروش پوری کر رہے ہیں جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ حکومت اب بالکل بے بس ہو چکی ہے اس لئے اس نے روٹی کے نرخ کم کرنے کے بجائے قبر کے نرخ کم کر دیئے ہیں۔
ؒ٭…٭…٭
سبزیاں‘ پھل مہنگے‘ یوٹیلٹی سٹورز پر گھی سستا‘ آٹا غائب‘ عوام خوار۔
لوجی! یہ رہا رمضان پیکیج۔ رمضان کے موقع پر شدومد کے ساتھ عوام کو ریلیف دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آٹا غائب‘ آلو جو رمضان سے قبل 40 روپے فی کلو دستیاب تھے‘ رمضان المبارک میں 65 روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں۔ سبزیوں کے نرخ بھی آسمانوں تک پہنچا دیئے گئے جبکہ پھلوں کی تو بات ہی نہ کی جائے۔ اتحادی دور حکومت میں بدترین مہنگائی عوام کیلئے سلو پوائزن بن چکی ہے‘ جو آہستہ آہستہ انہیں قبر تک لے جا رہی ہے۔ حکومتی سطح پر کئے گئے دعوے اور اعلانات محض ریت کی دیوار ثابت ہو رہے ہیں۔ سرکار نے مفت آٹا تقسیم کرنے کا جو منصوبہ بنایا اس کا بھی کوئی پرسان حال نہیں۔ ابھی کل کی ہی خبر ہے کہ چارسدہ اور بنوں میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بدنظمی سے دو افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس سے پہلے پنجاب میں بھی تین ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ایک زرعی ملک میں آٹے جیسی بنیادی چیز بھی ناپید ہو چکی ہے جس کے حصول کیلئے عوام کو پل صراط سے گزرنا پڑرہا ہے اور اپنی جانیں گنوانی پڑ رہی ہیں جبکہ انکی تذلیل الگ ہو رہی ہے۔ کسی بھی ملک میں ایسے حالات ناقص پالیسیوں کے باعث ہی پیدا ہوتے ہیں۔ موجودہ اتحادی پارٹیاں ملک کے حالات سنوارنے اور عوام کی مشکلات دور کرنے کیلئے ہی اقتدار میں آئی تھیں‘ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ سیاسی درجہ حرارت پہلے ہی عروج پر تھا‘ اب انتخابات کے التوا کا معاملہ کھڑا کرکے نئے انتشار کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ مہنگائی جس تیزی سے اپنے بے رحم پنجے گاڑ رہی ہے اور سیاسی درجہ حرارت بھی روزافزوں بڑھ رہا ہے ‘ اس تناظر میں انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں یا 30 اپریل کو‘ عوام کیلئے نتیجہ تو وہی دھاک کے تین پات والا ہی نکلے گا۔
٭…٭…٭
امریکہ میں نشے کی خاطر مہم جو افراد ایک مینڈک کو چاٹ کر اس سے مسرت حاصل کر رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس عمل سے وہ شدید بیمار ہو سکتے ہیں۔
اس مینڈک کو کولاراڈو دریا کا مینڈک بھی کہا جاتا ہے جو سات انچ تک بڑا ہو سکتا ہے۔ رات کی تاریکی میں اسکی آنکھیں چمکتی ہیں۔ اسکی جلد سے ایک خاص قسم کا زہر خارج ہوتا ہے جو کسی طرح بھی خطرے سے خالی نہیں۔ امریکہ کے کئی پارکوں میں پائے جانیوالے اس مینڈک کو چاٹ کر کئی مہم جو سرو ر حاصل کر رہے ہیں۔ اس مینڈک کے جسم سے غنودگی کی و جہ بننے والا ایک طاقتور کیمیکل جارج ہوتا ہے جو امریکی عوام میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ قدرت نے زہریلے حشرات بلاوجہ پیدا نہیں کئے‘ انکی تخلیق کا خاص مقصد ہے۔ کیونکہ تحقیق کے مطابق انکے زہر سے بنائی گئی ادویہ سے کئی مہلک اور عام بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ متذکرہ مینڈک میں بھی قدرت نے کوئی خاصیت ہی رکھی ہوگی مگر امریکی قوم نے اسے نشے کے طور پر چاٹنا شروع کر دیا ہے۔ ماہرین کے باربار منع کرنے کے باوجود لوگ اس بڑے مینڈک کو چاٹ رہے ہیں ۔ جس طرح شراب کے بارے میں کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
شراب چیز ہی ایسی ہے نہ چھوڑی جائے
یہ میرے یار کے جیسی ہے نہ چھوڑی جائے
اسی طرح یہ مینڈک بھی امریکیوں کے ٹوٹے دلوں کا علاج نظر آتا ہے جو ماہرین کے انتباہ کے باوجود امریکیوں کے منہ سے نہیں چھوٹ رہا۔