
سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان قانون کی عمل داری سے ہوتی ہے۔کوئی بھی مہذب معاشرہ قانون کی پاسداری یقینی بنائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ یہ آئین کی منشا بھی ہے اور جمہوریت کا بنیادی اصول بھی ہے۔ قانون کی پاسداری ہر شہری پر فرض ہے۔جب عدالتیں کسی کے لیے بھی سمن جاری کریں تو ان سمن پر پیش ہونا ضروری ہو تا ہے بلکہ لازمی ہو تا ہے۔قانون کی پاسداری میں ہی سب کچھ ہے۔چاہے سول کورٹ آپ کو بلائے یا پھر سپریم کورٹ پیش ہونا تو لازمی ہو تا ہے۔کسی بھی ملک کا عدالتی نظام اس ملک کی مضبوطی کی ضمانت ہو تا ہے۔لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کا عدالتی نظام بھی ماضی میں کبھی بھی عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترا ہے ،اور آج بھی انصاف کے ترازو طاقت ور اور کمزور کے لیے برابر نہیں ہیں۔جو سہولیات عمران خان کو عدالتوں کی جانب سے مل رہی ہیں یہ سہولیات پاکستان میں کسی بھی عام اور غریب شخص کو حاصل نہیں ہیں۔اگر عدل ہو گا تو ملک ملک ہو گا ورنہ ملک ملک نہیں رہے گا۔پاکستان کی بقا یقینا عدل میں ہے۔جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ صرف انصاف کا ہونا ہی ضروری نہیں ہوتا ہے لیکن انصاف کا ہوتا ہوا دیکھائی دینا بھی ضروری ہو تا ہے۔عدل اور انصاف کا بول بالا کرنا بہت ضروری ہے۔پاکستان کے سیاسی ماحول میں اس بات کی ضرورت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے کہ آئین پر سختی سے عمل کیا جائے ،ادارے اپنا کردار آ ئین کے کے مطابق ادا کریں اور ملک کو اس موجودہ سیاسی دلدل سے نکالیں ،ملک کو آگے بڑھانے کے لیے اہم فیصلے کرنے کی ضرورت ہے اور ان اہم فیصلوں کے لیے آئین پاکستان بنیاد ہونی چاہیے۔اس کے بغیر بات نہیں بننے والی ہے۔جمہوریت ایک رواں نظام میں ہے جس میں کہ ہٹ دھرمی کی کو ئی جگہ نہیں ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کا رویہ اس سے بالکل ہی متضاد ہے۔عمران خان صاحب بھی کی صورت میں بھی اپنی ذات سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اور یہی رویہ ملک کے لیے مشکل صورتحال پیدا کررہا ہے۔گزشتہ چند دنوں میں اسلام آباد اور لاہور میں جو واقعات پیش آئے ہیں وہ انتہائی افسوس ناک ہیں اور ان کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔لیکن یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ جو سیاسی کا رکن تھے یہ کسی بھی سیاسی عمل کی پیدا وار نہیں ہیں چونکہ جو سیاسی کا رکن ہو تے ہیں ،وہ اس طرح کی صورتحال میں اس طرح کا رویہ نہیں رکھتے ہیں۔لیکن اب تو صورتحال اس حوالے سے ہاتھ سے نکل ہی چکی ہے۔پاکستان کی موجودہ صورتحال ہمارے اکابرین اور اسٹیک ہو لڈرز جس میں سیاست دان اور ان کے علاوہ دیگر بھی شامل ہیں ان کی فاش غلطیوں اور حماقتو ں کا مجموعہ ہے ،اگر ہم اس وقت خطے کی صورتحال کو دیکھیں تو پاکستان کی معاشی اور سیاسی صورتحال خطے میں سب سے زیادہ بد تر ہے۔اور یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ہم آج اس صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔ہمارے سیاست دان نا لائق ثابت ہوئے ہیں بار بار ثابت ہو ئے ہیں اور ان کی نا لا ئقیوں کے باعث ملک کو شدید پہنچا ہے لیکن اس سے زیادہ نقصان اس بات سے پہنچا ہے کہ جن لوگوں نے سیاست دانوں کی جگہ لینے کی کوشش کی ہے انھوں نے ملک کو مزید تقسیم اور نفرت کا شکار کیا ہے۔ملک کی جڑیں کھوکھلیں کر کے رکھ دیں ہیں۔اب سب کے زہنوں میں یہی سوال ہے کہ اس صورتحال سے کیسے نکلا جاسکتا ہے۔کیا اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی طریقہ بھی ہے ؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں ہے ،عمران خان اور ان کی نفرت اور تفریق کی سیاست کو ایک طرف رکھ بھی دیا جائے تو دوسری جانب پی ڈی ایم ہے جو کہ معاشی اور سیاسی محاذ پر مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے ،نہ ہی ان سے آئی ایم ایف کا پروگرام فائنل ہو رہا ہے اور نہ ہی معیشت سنبھل رہی ہے اور نہ ہی مہنگائی کنٹرول ہو رہی ہے ،سیاسی طور پر عمران خان کا مقابلہ کیسے کیا جائے یہ ان کو سمجھ نہیں آرہا ہے ،اور بظاہر محسوس ایسا ہی ہو رہا ہے کہ اب پی ڈی ایم کی جانب سے پیپلز پا رٹی کے علاوہ دیگر جماعتوں کی طرف سے الیکشن میں تاخیر کرنے کے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح سے الیکشن میں تاخیر ہو جائے لیکن ایسا ہونا بظاہر آئینی رو سے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ممکن نہیں ہے اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو پھر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔اور آئین کی خلاف ورزی جب بھی کی گئی ہے وہ ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ہمیں بطور قوم اس صورتحال سے بچنے کی ضرورت ہے۔بظاہر اس صورتحال کا حل یہی نظر آتا ہے کہ یا ممکنہ طور پر نکل سکتا ہے جس کے امکانات نہایت ہی معدوم ہیں لیکن بہر حال موجود ہیں اور وہ یہ ہے کہ سیاست دان آپس میں بیٹھیں میثاق معیشت کریں ،ملک کو سیاسی طور پر آگے بڑھانے کے لیے ایک بنیادی ایجنڈے پر کام کریں۔ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کا روائیوں سے باز آئیں ملک کو سیاسی استحکام کی جانب لے کر جا ئیں اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والی نفرتیں بھی کم کرنے کی کوششیں کریں۔اسی طرح آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے۔