
ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail
ہمارے یہاں رمضان کے چاند کے بعد ہر چیز کا مہنگی اور نایاب ہو جانا معمول ہے۔ یوں تو چاند ہر ماہ با قاعدگی سے نکلتا ہے۔ زیادہ مشہور دو چاند ( آغاز ماہ صیام اور شوال کے ) ہیں یوں تو سائنس نے خوب ترقی کر لی ہے آئندہ پچاس سال کے بارے پہلے سے بتا سکتے ہیں کہ فلاں چاند کس تاریخ کو نکلے گا؟ لیکن ہم مسلمان ان کونہیں مانتے اور ملک میں چاند دیکھنے کیلئے کمیٹیاں بنا کر سینئر علما کرام کو دوبینوں کے ذریعے چاند دیکھنے پر بٹھا دیتے ہیں۔ چاند دیکھنے والوں کی بصیرت اور بصارت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ رات دس بجے پتہ نہیں کس کے کہنے پر اعلان کرتے ہیں کہ چاند نظر آ گیا ہے۔چاند جیسا حال الیکشن کرائے جانے کا ہے۔ یوں تو آئین و قانون کے مطابق الیکشن ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں۔پہلے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلاں سال کے اس ماہ میں الیکشن ہونگے لیکن جب اپنے مرضی سے وقت سے پہلے صوبائی اسمبلیاں توڑدی جائیں اور وقت سے پہلے الیکشن کرانا چاہتے ہوں اور دوسرے وہ ہیں جو وقت پر الیکشن کرانے کے خواہاں ہیں۔ایسے میں ان کے درمیان'' عدالتی جنگ'' شروع ہو جاتی ہے مگر جب چند معزز عادل خود پارٹی بن جائیں تو پھر حالات سدھرنے کے بجائے مزید خراب ہو جاتے ہیں۔یہاں بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔جب حالات خراب ہوتے ہیں تو اس خرابی کے اثرات عوام اور سارے ملک پر پڑتے ہیں۔اس وقت لگ یہی رہا ہے ملک سے باہر کی قوتیں بھی ہمارے حالات میں دخل انداز ی کر رہی ہیں۔اگر بات گھر تک رہتی ہے تو مسائل گھر کے اندر ہی حل ہو جاتے ہیں مگر جب گھر کے غیر بھی حصہ لینے شروع کر دیں تو پھر حالات مزید خراب ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ ملک بھی ایک گھر ہے۔جس کو چلانے کیلئے مالی ا مداد کی ضرورت رہتی ہے۔یہ مالی ا مداد ہمیشہ سے آئی ایم ایف سے ملتی ہے۔امداد دینے والے کہتے ہیں۔ اگر ہم آپ کی مدد کرتے ہیں تو ہماری بات بھی مانا کریں۔قرضہ ہماری شرائط پر ملے گا۔اس وقت امریکہ چین روس کی سرد جنگ جاری ہے۔لہذا امریکہ نہیں چاہتا کہ قرضہ ہم دیں اور چین کے ساتھ مل کر سی پیک بنائیں۔ جب کہ چین کی خواہش اور ضرورت ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہر پہلو پر تعلقات اچھے رکھے تاکہ سی پیک فنگشنل ہو سکے ۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ کو ہماری چین سے دوستی اور کام کرنا پسند نہیں۔ جب سویت یونین کی جنگ افغانستان پر مسلط تھی تو ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا اور سویت یونین کو شکست ہوئی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ اب امریکہ کو پاکستان سے دوستی کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ دوستی اس وقت تک تھی جب تک بھارت روس کا ساتھی ہوا کرتا تھا۔ہمارے بم سے امریکہ نے یہ فائدہ اٹھایا ہے کہ بھارت کو ہم سے ڈرا کر روس سے الگ کر دیا ہے۔بھارت کو فائدہ امریکہ سے یہ ہوا کہ اسے مقبوضہ کشمیر بھارت کی پلیٹ میں رکھ کر مل گیا۔اب امریکہ بھارت سے قریب اور دوستی کر چکا ہے اور ہم اب امریکہ ضرورت نہیںرہی۔اس صورتحال کو دیکھ کر چین نے ہمارے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے لیکن امریکہ اور بھارت نہیں چاہتے کہ چین ہم سے دوستی کرے اور ہم ترقی کریں ۔ ہم ان کے رحم و کرم پر رہیں تاکہ ہم معاشی طور پر کمزور ہوں۔یہ تو طے ہے کہ ہمارے حکمران الیکشن سے نہیں سلیکشن سے لائے جاتے ہیں پھرعوام پر بٹھائے جاتے ہیں۔ان کو لانے کیلئے جس طرح غبارے میں ہوا بھری جاتی ہے اسی طرح ان کو بھی عوام میں مقبول بنایا جاتا ہے۔پھران سے کام لے لیا جاتا ہے تو انہیں ماضی کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ وہ حکمران جو یہاں لمبے عرصے کے لئے رہتے ہیں ان کا حشر دیکھ لیں کہ وہ کس طرح اگلی دنیا میں جاتے ہیں۔ جس غبارے میں ہوا زیادہ بھرتے ہیں اس کا انجام بھی اتنا ہی خوفناک ہوتا ہے ۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہاں بہت سے ادارے اشاروں پہ کام کرتے ہیں،اپنے بڑے کی بات مانتا ہے۔ کام فیصلے اپنی مرضی سے نہیں دوسروں کی مرضی سے کرتا ہے۔جیسے اس بندے نے جان ا? کو نہیں انہیں دینی ہو۔ موجودہ حالات میں وقت سے پہلے اسمبلیاں توڑنا الیکشن وقت سے پہلے کرانے پر زور دینا اور خود جب سے وزیراعظم سے باہر ہوئے اسمبلی میں جانا گوراہ نہ کیا۔یہ وقت سے پہلے الیکشن میں جانا اس لئے چاہتے ہیں کہ میں جیت کر ایک بار پھر وزیراعظم بن جائیں۔اگر الیکشن میں جیت نہ ملی تو شور کریں گے کہ شفاف الیکشن نہیں ہوئے ،پھر کیا ہو گا۔ملک انارکی کی طرف جائے گا ،فائدہ انہیں حاصل ہو گا جھنوں نے غبارے میں ہوا بھری تھی۔ سپریم کورٹ نے سو موٹو لینے پر چند ججز نے بہت پیارا رستہ دکھایا تھا کہ دیکھ لیا جائے کہ کیا اسمبلیاں قانون اور آئین کے مطابق توڑی گئی ہیں مگر انکے کہنے پر کوئی سوچ بچار نہ کی گئی۔ پہلے یہ خود کہا کرتے تھے کہ امریکہ نے مجھے باہر کیا ہے۔ روز سیفر لہراتے تھے کہ امریکہ نے میرے خلاف سازش کی ہے اور پھر باجوہ کے خلاف ہو گئے۔ اب اس جماعت نے پیسے لگا کر امریکن لابی تیار کی ہے جس کے رزلٹ اب آنابھی شروع ہو چکے ہیں۔ امریکی مشہور شخصیت زلمی خلیل زاد نے ان کے حق میں بیان دے رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اب ملک کے اداروں نے آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چھوڑ دیا ہے ، عدالتوں نے حد ہی کر دی ہے۔ ملزم اگر پہلی کال پر عدالت میں حاضر نہیں ہوتا تو اس کی غیر حاضری لگ جاتی ہے۔مگر یہاں تو ملزم گھر سے آٹھ بجے اپنے لشکر کے ساتھ نکلتا ہے۔اپنی مرضی سے ایڈیشنل کی عدالت کو اپنے کیس کی فائل کے ساتھ سٹاف کے ساتھ نئی عدالت میں شفٹ کراتا ہے۔جج ملزم کے انتظار میں سارا دن بیٹھا رہتا ہے اور ملزم پہنچ کر بھی گاڑی سے نہیں نکلتا۔پھر عدالت اپنے عملے ، پولیس افسر اور وکلا کیساتھ گاڑی سے حاضری کیلئے د ستخط لینے بھیج دیتے ہیں ۔ایسے میں عدالت کا ریکارڈ گم ہو جاتا ہے عدالت پھر بھی اس حاضری کوتسلیم کر کے انہیں گھر جانے دیتی ہے۔ایسا دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتا ۔ اداروں کو اپنے فیصلے اپنی مرضی سے کرنے دیا جائے۔الیکشن کمیشن نے حالات و واقعات کے مطابق اچھا فیصلہ دیا ہے کہ ملک میں تمام الیکشن مردم شماری کے بعد ایک ساتھ اکتوبر میں اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔اب سوائے ایک جماعت کے سب سیاسی جماعتیں یہی چاہتی ہیں کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ایک ساتھ ہوں '' اسی میں بہتری اور یہی مسئلے کا حل ہے ''