پاک سپہ سالار نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے اچھے تعلقات درحقیقت پورے خطے میں ترقی اور خوشحالی کا راستہ کھول سکتے ہیں کیوں کہ یہ تعلقات مشرقی اور مغربی ایشیاء کو منسلک کرتے ہوئے جنوب اور وسط ایشیاء کی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی کنجی ہیں۔ پاکستان یقینا باوقار اور پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے سبھی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تمام دیرینہ تنازعات حل کرنے کے لئے تیار ہے مگریہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر اس ضمن میں ٹھوس اور حقیقی پیش رفت ممکن نہیں۔ اسی صورتحال کا جائزہ لیتے سفارتی اور عسکری ماہرین نے 17اور18مارچ کو نیشنل سکیورٹی ڈائیلاگ کے انعقاد کو اہم قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس بابت مثبت اور نتیجہ خیز پیش رفت ہو گی۔پاک افواج کے سربراہ نے کہا کہ قومی سلامتی مکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور اب وقت آچکا ہے کہ خطے کے باہمی روابط کو پرامن بقائے باہمی اور وسائل کی مصنفانہ تقسیم کے ذریعے جنوبی ایشیاء میں ہم آہنگی کی جائے تاکہ ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے بھوک، ناخواندگی اور امراض کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں ۔ غیر جانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکمران ہٹ دھرمی پر مبنی اپنی منفی روش کو ترک کرکے اعتدال اپنائیں ۔
یہ امر غالبا کسی سے پو شیدہ نہیں کہ پاکستان کی تمام تر حکومتیں اس امر کی حامی رہی ہیں کہ سبھی تنازعات کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جائے مگر دہلی کے رویے کے سبب تاحال اس جانب کوئی نتیجہ خیز پیش رفت نہیں ہو سکی۔اس بابت یہ بات بھی خاصی اہم ہے کہ وزیر اعظم نے بھی اس سیکورٹی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے علاقائی روابط کو فروغ مل سکتا ہے جس کے نتیجے میں خطے میںنہ صرف اقتصادی خوشحالی کا حصول ممکن ہے بلکہ اس کے خوشگوار اثرات پوری دنیا کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ غیر جانبدار مبصرین کے بقول اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہماری ترقی، خوشحالی اور امن و استحکام کا دارومدار پاک بھارت سازگار تعلقات پر ہے اور سازگار تعلقات دوطرفہ تنازعات طے کر کے ہی استوار کئے جا سکتے ہیں جن میں کشمیر کا تنازعہ سرفہرست ہے۔ اگر پڑوسی ہونے کے ناطے پاکستان اور بھارت کے مابین پُرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت خوشگوار تعلقات قائم ہوتے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی اقتصادی، معاشی ترقی میں معاون بنتے ہیں تو اس سے پورے خطے میں اقتصادی استحکام پیدا ہو گا اور خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ اس طرح جنوبی ایشیا بھی دنیا کے جدید ترقی یافتہ معاشروں کی اولین صف میں شامل ہوسکتا۔ انسان دوست حلقوں نے اس ضمن میں کہا ہے کہ اگر قیام پاکستان کے بعد مثبت جذبے کے تحت بھارت نے پاکستان کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو تسلیم کرکے اس کی جانب دوستی اور علاقائی تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہوتا تو آج ہم بلاشبہ مستحکم اقتصادی معیشت والے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو چکے ہوتے مگر بھارت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور اکھنڈ بھارت والے ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت پاکستان کے ساتھ شروع دن سے ہی دشمنی کی بنیاد رکھ دی تھی جس کے تحت پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنا بھارت نے اپنی پالیسی کا بنیادی حصہ بنا لیا۔ بھارت کی اس پالیسی کی بنیاد پر ہی پاکستان کے ساتھ اس کے تنازعات شروع ہوئے جن میں کشمیر کا تنازعہ پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنے کی نیت سے بھارت نے خود کھڑا کیا جو آج قدیم ترین تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس مسئلہ کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد تو کجا، بھارت شملہ معاہدہ کے تحت پاکستان کے ساتھ کبھی دوطرفہ مذاکرات کی راہ پر بھی نہیں آیا۔ اس کے برعکس بھارت نے اپنے غیر قانونی قبضہ میں لی گئی وادی جموں و کشمیر کی بابت اٹوٹ انگ کا راگ الاپ کر یہ مسئلہ مزید پیچیدہ بنایا اور پھر پانچ اگست 2019ء کو اپنے زیر تسلط جموں اور لداخ کو باقاعدہ بھارت میں ضم کر کے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق کئے۔ اسی پس منظر میں یہ بات بھی خاص اہمیت رکھتی ہے کہ نیشنل سیکورٹی ڈائیلاگ کے آغاز میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے مختصر مگر جامع انداز میں اس ڈائیلاگ کے اغراض و مقاصد کو خاصے متاثر کن انداز میں بیان کیا اور واضح کیا کہ دور حاضر میں جنگیں محض میدان جنگ میں نہیں لڑی جاتیں بلکہ اب یہ دائرہ ہمہ جہتی شکل اختیار کر چکا ہے۔ایک جانب اقتصادی ،معاشی ، معاشرتی اور ماحولیاتی تحفظ بھی اس کی اہم جزویات میں شامل ہو چکے ہیں تو دوسری طرف سائبر سکیورٹی ،آرٹی فیشل اینٹی جنس، کورونا جیسی مہلک وبائیں اورتیزی سے پگھلتے گلشئیر خطر ے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔علاوہ ازیں موسمی تبدیلیاں اور ٹڈی دل جیسی آفات ہر شے کو نگلنے کے درپے ہیں اور دنیا تیزی سے ان دیکھے خطرات کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ایسے میں توقع تویہ تھی کہ بھارتی حکمران نیشنل سکیورٹی ڈائیلاگ کے انعقاد کو اُس کی صحیح رو ح کے مطابق لیں گے مگر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس ضمن میں جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے اسے کسی طور حوصلہ افزا قرار نہیں دیا جا سکتا مگر پھر بھی یہ توقع رکھنا بیجا نہ ہوگا کہ پاکستانی حکومت اور عوام نے جس طور افغان امن عمل کو آگے بڑھانے میں اپنا پھرپور کردار ادا کیا اس کے پیش نظر عالمی برداری بھی تعمیری روش اپنائے گی تاکہ نہ صرف جنوبی ایشیائی خطہ بلکہ پوری دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔امید کی جانی چاہیے کہ قومی سلامتی مکالمے کو مزید آگے بڑھایا جائے گا تاکہ اچھے دنوں کے قیام کا خواب اپنی تعبیر حاصل کر سکے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024