وزیراعظم عمران خان سچے ہیں قوم کو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ ملک کی موجودہ صورت حال میں وہ بہترین انداز میں زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے درست اعدادوشمار عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ ملک کی مالی صورت حال نہایت کمزور ہے اور عمران خان ان حالات سے بخوبی واقف ہیں ان کے پاس دو راستے ہیں کہ وہ عوام کے ساتھ جھوٹے وعدے کریں، بڑے بڑے اعلانات کریں ، سبز باغ دکھائیں، دوسرا راستہ یہ ہے کہ سچ بولیں عوام کو حقیقت سے آگاہ کریں۔ بلند و بانگ دعووں کے بجائے ملک کی مالی حالت کے مطابق مشکل ترین حالات میں عوام کی آسانی کے لیے خصوصی اقدامات کریں۔ ان دنوں وہ یہی کر رہے ہیں۔ کررونا وائرس اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ پاکستان میں داخل ہو چکا ہے۔ ملک بھر میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد نو سو اٹھاون ہو چکی ہے جب آپ سائرن کا مطالعہ کر رہے ہوں گے اس وقت تک یقینی طور پر تعداد بڑھ چکی ہو گی۔ وائرس کے حملے بڑھ رہے ہیں اور متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں عمران خان کی طرف سے اپنی عوام سے سچ بولنا اور حقائق سامنے رکھنے کا عمل قابل تعریف ہے۔ ماضی میں کسی بھی مشکل وقت میں حکمرانوں کا رویہ ہمیشہ مختلف رہا ہے۔ سب بڑے بڑے دعوے اور وعدے کرتے رہے۔ عمران خان اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ انہوں نے روایتی سیاست اور طرز حکمرانی کے بجائے عوام کو باخبر رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو بھی ایسی باتیں سننے کی عادت نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ سمیت دیگر اہم شعبوں میں بھی وزیراعظم کے اس طرز عمل پر تنقید ہو رہی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک کی مالی صورت حال خراب ہے اور کمزور مالی حیثیت کی وجہ سے عمران خان کے اقدامات درست ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے عوامی مشکلات کم کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے مالی مدد کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ آٹھ سو اسی روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان یقیناً عوام کی مشکلات کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ حکومت نے پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں پندرہ روپے فی لیٹر کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ قیمتیں تین ماہ تک برقرار رہیں گے۔ لاک ڈاؤن کیاثرات سے نمٹنے کیلئے سو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں تین سو یونٹ تک بجلی اور گیس کے بل تین ماہ تک قسطوں میں لے جائیں گے، ہر خاندان کو چار ماہ تک ماہانہ تین ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ مزدور طبقے کی مدد کے لیے دو سو ارب روپے،یوٹیلیٹی سٹورز کیلئے پچاس ارب، گندم کی سرکاری خریداری کیلئے دو سو اسی ارب ، انتہائی غریب طبقیکیلئے ایک سو پچاس ارب روپے مختص کر دیے گئے ہیں۔ ملک کی کمزور مالی حالت کے باوجود بڑا ریلیف پیکج وزیراعظم کی عوام دوستی کا ثبوت ہے وہ بھی ان حالات میں کہ عوام سے کچھ چھپایا نہیں جا رہا۔ وزیراعظم عمران خان کی نیت ٹھیک ہے اور وہ شخصی فائدے کو دیکھتے ہوئے ملک سے روایتی سیاست اور وقتی فائدے کے لیے عوام سے غلط بیانی کی روایت کے خاتمے کی طرف بڑھے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری عوام کی ہے کہ اس نے جھوٹے وعدوں کے سہارے آگے بڑھنا ہے یا پھر سچ سننے کی عادت ڈالنی ہے۔ جب تک عمران خان اس منصب پر ہیں وہ تو عوام سے کچھ چھپانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ نا ہی جھوٹے دلاسے دیں گے۔ یہی اس ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ جب تک خیالی دنیا سے حقیقی دنیا میں نہیں آئیں گے مسائل کم نہیں ہو سکتے۔
قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی ملک میں واپسی خوش آئند ہے ہم نے گذشتہ روز انکی واپسی اور مشکل وقت میں عوام کے درمیان رہنے پر حوصلہ افزائی کی تھی لیکن انہوں نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے جو مطالبات وزیراعظم کے سامنے رکھے ان کی اکثریت زمینی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتی‘ کیا ملک کی مالی صورتحال یہی ہوتی شہباز شریف وزیراعظم ہوتے تو کیا جس پیکج کا وہ مطالبہ کر رہے تھے اس کا اعلان کر سکتے تھے۔ یقیناً نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خزانے میں کیا چھوڑ کر گئے ہیں۔ وفاق اور پنجاب کی مالی حالت کیا تھی یہ شہباز شریف سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ دس سال تک مسلسل پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد انہوں نے صوبے کو مقروض چھوڑا ہے۔ شہباز شریف کو سینئر سیاستدان کی حیثیت سے تقسیم کے بجائے اتحاد کی پالیسی کو آگے بڑھانا ہو گا۔ قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے مطالبات ان کا حق ہے وہ عوامی مطالبات وزیراعظم کے سامنے رکھیں لیکن اس سے پہلے ملک کی مالی صورت حال کو بھی سامنے رکھیں۔ شہباز شریف اس مشکل وقت میں بہت موثر کردار ادا کر سکتے ہیں وہ ایک تجربہ کار اور سمجھدار سیاست دان ہیں الفاظ کے استعمال سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ انتظامی معاملات کا تجربہ بھی رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ایسے حالات میں مقروض ملک کی کیا مجبوریاں ہوتی ہیں بہتر یہی ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں تعمیری سیاست کریں اور اپنی جماعت کو بھی اس جذبے کے ساتھ آگے لے کر چلیں۔
کرونا وائرس کے مریضوں کی بڑھتی تعداد ہمیں مسلسل احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ عوام کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لاک ڈاؤن کے باوجود سڑکوں پر ٹریفک ہے، دفاتر میں لوگ ابھی تک احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں یہی صورتحال عام زندگی میں بھی ہے۔ گنجان آباد علاقوں میں زندگی معمول پر ہے۔ کرونا سے بچاؤ کا واحد موجود ذریعہ احتیاط ہی ہے۔ عوام کے لیے لازم ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کرے۔ گھروں میں رکے رہیں، گھروں سے باہر کم نکلیں باامر مجبوری باہر نکلنے والے ماسک، ہینڈ سینی ٹائزر کا استعمال کریں۔ بار بار ہاتھ دھوئیں مناسب فاصلہ برقرار رکھیں۔ سب سے بڑھ کر گھروں میں موجود ہیں تو استغفار کریں اللہ سے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی طلب کریں ہمیں فیصل آباد سے پیغام ملا ہے کہ گذشتہ روز سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے مولانا بشیر احمد فاروقی نے اپنے گھروں میں روزانہ رات دس بجے اذان پڑھنے کا پیغام پہنچا رہے ہیں ہمیں احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اپنے گھروں میں رکتے ہوئے بھی ایسے اجتماعی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38