سید سلطان احمد قتالؒ کی تبلیغی ودینی خدمات

سرزمین ملتان کو اولیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے چونکہ جلالپور کے خطہ کا شمار ملتان میں ہوتا ہے تبھی اس سرزمین پر بھی اولیاء اللہ کا آنا جانا لگا رہا جن اولیاء کرام نے اس خطہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور لوگوں کو اپنے فیض سے مستفیض کیا ان میں آسمان تصوف پر ایک درخشندہ ستارہ کی مانند چمکتا ہوا نام سید سلطان احمد قتال بخاریؒ کا ہے آپ کا سلسلہ سہروردیہ 11 ویں پشت میں اوچ شریف کے معروف بزرگان دین جلال الدین بخاری سرخ پوش سے اور 28 ویں پشت میں حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے خاندان کے دیگر جید بزرگان دین میں حضرت موسن قتال بخاریؒ‘ حضرت قائن شاہؒ ڈیرہ غازیخان‘ حضرت عالم پیرؒ شہر سلطان‘ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت حضرت مخدوم ناصر الدینؒ اور حضرت عمر قتال بخاریؒ شامل ہیں۔
حضرت سلطان احمد قتالؒ 949ھ کو اوچ شریف کے مقام پر سید دولت علی المعروف سید غیاث الدینؒ کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ 21 برس کی عمر میں رہبر کامل کی تلاش میں گھر سے نکلے اور 970ھ میں کہروڑپکا کی ایک نامور بزرگ ہستی حضرت پیر علی سرورؒ کے در دولت پر تشریف لے گئے اور ان کی بیعت سے سرفراز آپ کافی عرصہ وہیں قیام رہے اور ان سے دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کی۔ آپ وہاں نہ صرف علم کی برکتوں سے فیض یاب ہوئے بلکہ اپنے پیر و مرشد کی معیت میں حج بیت اﷲ اور روضہ رسولؐ کی زیارت کے ساتھ ساتھ کربلا معلیٰ اور نجف اشرف کی زیارات سے بھی مشرف ہوئے بعدازاں اپنے مرشد کے حکم پر بخارات کا سفر کیا وہاں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد ملتان شریف لائے۔ ان دنوں میلسی ملتان کا حصہ تھا اور اس کے مضافات میں جنگلات تھے جن میں ہندوؤں کے سدہیرا اور لکھویرا قبائل کی بہت بڑی تعداد رہائش پذیر تھی آپ کے ذمہ ان قبائل کو دعوت اسلام دینے کی ذمہ داری سونپی گئی چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے اور وہیں ڈیرے ڈال لئے آپ نے وہاں ہندوؤں کے لباس میں ملبوس ہو کر اسلام کی تبلیغ شروع کر دی آپ کے حسن اخلاق و سلوک کا ایسا اثر ہوا کہ وہ ہندو جوق در جوق مشرف بہ اسلام ہو گئے۔
990 ھ میں آپ دریائے ستلج اوردریائے چناب کے سنگم میں بہتے ایک جنگل بیاباں اور سنسان علاقہ میں تشریف لائے جب آپ کے فیض اور برکتوں کا شہرہ عام و خاص میں مقبول ہوا تو لوگ آہستہ آہستہ اس علاقہ میں آباد ہونا شروع ہوئے اور ایک شہر کی بنیاد پڑی۔ آپ نے اس شہر کا نام اپنے جدامجد حضرت جلال الدین بخاریؒ سرخ پوش کے نام نامی پر جلالپور رکھا جو بعد میں آپ کی نسبت سے جلالپور پیروالا کے نام سے مشہور ہوا۔ آپ نے کہروڑپکا‘ دنیا پور‘ میلسی‘ وہاڑی‘ لودھراں‘ ریاست بہاولپور‘ شجاع آباد اور ملتان کے جنوبی علاقوں میں اسلام کی تبلغ کی اور ہزاروں افراد اسکے بدولت حلقہ بگوش اسلام ہوئے آپ کشف و کرامات ولی اللہ ہو گزرے ہیں جن کا فیض اب بھی جاری و ساری ہے۔
آپ نے 92 سال کی عمر پائی۔ آپ کا وصال 1041 ھ میں جلالپور پیروالا میں ہوا یہیں پر ہی آپ کا مزار انوار تعمیر کیا گیا۔ ایک روایت ہے کہ دہلی میں اس وقت محمد شاہ مغلیہ کا راج تھا گورنر ملتان نے 2 لاکھ روپے کی لاگت سے یہ دربار بنوایا۔ دوسری روایت ہے کہ آپ کی 3 پشت بعد سلطان احمد ثانی نے یہ دربار بنوایا۔
تیسری روایت ہے کہ شہنشاہ ہمایوں کی بیگم حمیدہ بانو جب یہاں سے گزری تھیں تو اس نے منت مانی تھی کہ اگر ہمارا اقتدار بحال ہو گیا تو میں دربار بنواؤں گی جب ایران کے شہنشاہ طہماسپ کی مدد سے بادشاہت بحال ہوئی تو اس نے منت کے مطابق یہ دربار بنوایا۔ چوتھی روایت ہے کہ جب شاہجہاں یہاں سے گزرا تو اس کو اس بزرگ ہستی کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے ایک فرمان جاری کیا جس سے یہ خوبصورت دربار تعمیر ہوا۔ دربار کی تعمیر 1108 ھ میں شروع ہوئی اور 1158 ھ میں مکمل ہوئی۔ 50 برس آپ کا عالیشان دربار تعمیر ہوتا رہا۔ یہ دربار محمد مراد انجینئر سکنہ جتوئی ضلع مظفر گڑھ کی جدت طبع اور فنکاری کی نادر یادگار ہے اور گنبد پر اس طریقے سے رنگ برنگی اینٹیں جڑی گئی ہیں کہ انتہائی خوش نما بیلیں بنتی چلی گئی ہیں۔ ایک انتہائی خوبصورت اور عالیشان مسجد اس کے احاطے میں تعمیر کی گئی جس میں دیوان سلطان احمد نے انتہائی قیمتی فانوس لگوائے ۔ اب محکمہ اوقاف نے اس قدیمی مسجد کو شہید کر کے وہاں جدید طرز تعمیر کی مسجد تعمیر کی ہے۔