ہماری آزمائش اور سچی توبہ

اس وقت پوری دنیا ایک انتہائی چھوٹے سے کرونا وائرس سے خوف زدہ ہوچکی ہے ہر شخص موت کے خوف میں مبتلا ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک وائرس کے ذریعے انسانیت کو ان کی اصلیت دیکھادی ہے کہ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا ہے کرونا وائرس کہ جس حجم بھی خودربین سے بڑی مشکل سے دیکھا جاسکتاہے اور ہم انسان ہیں کہ جنہو ں نے ایک دوسرے کو مارنے کے لیے کھربوں روپے خرچ کرکے ایٹم بم بنایا ایٹم بم بھی دراصل خوف زدہ لوگوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے رکھا ہواہے اور اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایک وائرس کے ذریعے ہماری اوقات ہم پر عیاں کردی ہے کہ اگر اللہ چاہیے تو ہم انسانوں کو ایک چھوٹے سے وائرس کے ذریعے بھی ہلاک کرکے رکھ دیتاہے اور پھر وہاں پر نہ تو تمہاری سائنس کام آتی ہے اور نہ ہی تمہاری کوئی تعبیر اور حکمت کام آتی ہے گزشتہ دوماہ سے کرونا وائرس کے ڈر اور خوف کی وجہ سے شہروں کے شہر اوربستیوں کی بستیاں خالی ہورہی ہیں انسانوں نے موت کے ڈر سے اپنے آپ کو گھروں میں قید کرلیا ہے ایک ملک دوسرے ملک سے دور ہورہاہے یہاں تک کہ ہم مسلمانوں کی سب سی بڑی عبادت گاہ بیت اللہ شریف میں بھی مطوٰف کے اندر طواف پر پابندی عائد کردی گئی ہے مساجد کو بند کردیاگیا اور اس طرح کویت میں تو باقاعدہ طور پر مساجد سے یہ اعلان ہورہے ہیں کہ اپنی نماز یں گھروں میں ادا کرو اور ابھی متحدہ عرب امارات نے مساجد میں جمعۃ المبارک کی ادائیگی پربھی پابندیاں عائد کردی ہیں اور ہمارے ملک میں بھی اوقاف کے زیر انتظام بڑی مساجد اور مزارات کو بھی سیل کردیا گیا پورا نظام زندگی درہم برہم ہوچکا ہے بیرونی ممالک کے سفر پر پابندیاں لگ چکی ہیں بڑے بڑے ممالک سمت ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کا کھربوں روپے کے نقصان ہورہاہے سائنس دان کرونا وائرس کی ویکسین بنانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے اور یہی سے پتہ چلتاہے کہ ہمارا رب کتنا بڑاطاقت ور اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والہ ہے چونکہ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں سے ناراض ہے کافرتو پہلے ہی روندے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کو بھی معلوم ہے کہ ان بدبختوں نے میری نافرمانی کرنی ہے اس لیے میں نے بھی ان کی مہمان نوازی دوزخ کی بھڑ کھتی ہوئی آگ سے تیار کررکھی ہے اور یقیناً بہت جلد کافر اپنے انجام بدکو دیکھ اور محسوس کریں گے اور اب رہے مسلمان تو ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے سے نامعلوم کرونا وائرس کے ذریعے ان کی اوقات یاد دلادی ہے کہ ان کو ان کی اعلیٰ ترین عبادت سے بھی دور کردیا کہ جاو ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے یار ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ہم مسلمانوں میں وہ کون سی ایسی برائی ہے جو اس وقت نہیں پائی جاتی اگلے دوماہ میں رمضان المبارک آرہاہے اور ہمارے تاجر طبقہ نے رمضان المبارک میں ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے بارے میں ابھی سے سوچنا شروع کردیا ہے پہلے روزہ سے ہی مارکیٹ میں تمام کھانے پینے کی چیزوں میں ایک سو فیصد تک اضافہ نظر آتاہے اور دعوے یہ ہے کہ میں نے درجنوں عمرے کیے ہیں اور ہرسال باقاعدگی سے زکوۃ ادا کرتاہوں لیکن ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کو اپنا حق سمجھتا ہوں یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے اس طرح کی ہزاروں اخلاقی بیماریاں ہم سب میں تیزی سے سرایت کرچکی ہیں مساجد پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہے کہ جو اپنے علاوہ سب کو حقیر سمجھتے ہیں ہمارے سردار ’’اور بڑے ‘‘ ایسے لوگ بن چکے ہیں جنہوں نے ناجائز ذرائع سے اتنی دولت اکٹھی کرلی ہے کہ دنیا کی ہر چیز خرید کرسکتے ہیں حضور اقدس ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ قرب قیامت میںکمینہ قوم کا سردار ہوگا اور اب یہی کچھ ہورہا ہے ہرشعبے میں بدکردار انسان لیڈر بناہواہے ۔جبکہ شریف اور اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان گھٹن کا شکار ہورہاہے دوسر ی طرف ہمارے لوگ ایسے ہی کمینہ فطرت دولت مند اور مکار انسان کو پسند کرتے ہیں جو نو دولیتا ان کو جھوٹ اور مکر وفریب کے ذریعے اپنے دام کا شکار بنارہاہے اور ہم جیسے سادہ لوح انسان ان کے دھوکے کا شکار ہورہے ہیں ہزاروںرہزن لباس خضر میں اپنی چرب زبانی اور جھوٹ کے ذریعے عارضی عزت اور شہرت کا طلب کررہے ہیں یہ ہے ہمارے معاشرے کا المیہ کہ ہر کام میں ڈنڈی ماررہے ہیں اپنی جائیدادوں سے اپنی بیٹیوں کو محروم کررہے ہیں جبکہ اپنے نافرمان بیٹے کی خاطر آگے دوزخ کی آگ خرید رہے ہیں سود کو مختلف طریقوں سے حلال قرارد دیاہواہے علماء کی صفوں کا ذرا جائزہ لیں تو بڑے بڑے علما نے اپنی اپنی دکان سجا رکھی ہے اورہمیں چھوٹے چھوٹے فروعی اختلافات میں پھنسا کر فرقہ بندی پیدا کررہے ہیں ہم ایک دوسرے کو کھاجائے والی نظروں سے دیکھتے ہیں ایک فرقہ دوسرے کو جھوٹا قرار دے رہاہے بعضبد زبان اور بدفطرت لوگ ٹی وی پر وگراموں میں بیٹھ کر ایک طرف ناچ گانا برپاکیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف رمضان المبارک شروع ہوتے ہی یہ بدخلصت لوگ دین کا لبادہ اوڑھ کر علما ء کا روپ دھار لیتے ہیں قرآن پاک میں ایسے لوگوں کے بارے میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں یہ لوگ بڑے متاثر کن بنے ہوئے ہیں یہ ہے ہمارا معیار کہ جب ہم کھرے اور کھوٹے کو بھی نہیں پرکھ سکتے تو پھر ہم کیسے مسلمان ہیں اقبال تو ایک صدی پہلے ہم جیسے مسلمانوں کے بارے میں کہہ گئے تھے کہ جن کو دیکھ کر ’’شرمائے یہود ہنود‘‘ اور اب جبکہ پوری دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو آزمانے اور سچی توبہ کرنے کے لیے کرونا جیسی وبا پیدا کردی ہے تو مجال ہے کہ ہم مسلمان اس کڑی آزمائش میں اپنے سچے رب کے سامنے سچی توبہ کرلیں یہی تو وقت ہے سچی توبہ کرنے کا کہ جب اللہ تعالیٰ سے ہم سے ناراض ہوچکا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم اپنی اعلیٰ ترین عبادت طواف سے بھی محروم ہوچکے ہیں عمرے کرنے پر پابندیاں لگ چکی ہیں مساجد کو بند کیا جارہاہے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی نارضگی ہے چاہیے تو یہ تھا کہ پوری قوم روروکر اپنے رب کے سامنے سچی توبہ کرلیتی لیکن ہم بڑی ڈھیٹ قوم بن چکے ہیں ہم ایک دوسرے کو مورد الزام تو ٹھہرارہے ہیں کہ کروناکس طریقے سے روکا جائے لیکن جو طریقہ اللہ تعالیٰ اس کے پاک رسول ﷺ نے بتایا ہے کہ ایسی وبا کو روکنے کے لیے سچی توبہ اورجس جگہ یہ پھیل جائے وہاں سے نہ کسی کو اندر آنے دیا جائے اور نہ باہر لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اورسب سے پہلے ڈیرہ غازی خان کو منتخب کیا ہے لیکن کیا ڈیرہ غازی خان میں مکمل انتظامات کیے گئے ہیں وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز ڈیرہ غازی خان سنٹر کامعائنہ کیا ہے جب کہ انتظامیہ بھی اپنی طرف سے مکمل کوششوں میں مصروف ہیں کہ زائرین کو پندرہ دنوں بعد رخصت کیا جاسکے لیکن ضرورت اس عمل کی ہے کہ ہم اپنے اللہ اپنے گناہوں کی توبہ کریں۔